جہد مسلسل کی علامت بانک کریمہ بلوچ
تحریر: امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کیا لکھوں،کیسے لکھوں، ایک ایسے کردار کی کہانی جس نے کم عمری میں ریاست کے ظلم و ستم کو اپنی معصوم آنکھوں سے دیکھا۔ جس نے گھروں کے جلنے کے واقعات سے لے کر نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور انکے چھلنی جسم کی تکلیف کو اپنے رگ رگ میں محسوس کیا۔
ایک طاقت ور ریاست جس کو ایٹمی ملک ہونے پر ناز ہے جس کا ہر تنخواہ خور سپاہی خود کو اسلام کا محافظ سمجھتا ہے۔ایک ایسی فوج جو عالمی اداروں سمیت اپنے ملک کے آئین و قانون کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ردی میں پھینک دیتی ہے جس کے ظلم و بربریت کی مثالیں بنگلہ دیش،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں موجود ہے۔
ہرطرف ہو کا عالم، ہر طرف کشت و خون کا بازار لیکن عزم و استقلال کی مثال بانک کریمہ ان دندناتے ہوئے وحشی جانوروں کے وحشی کارناموں کو بلوچ عوام کے سامنے کبھی کوئٹہ،کبھی تربت اور کبھی کراچی میں اجاگر کرتی ہے اور کبھی ان شیطانی چیلوں کے کارناموں کو لیکر اقوام متحدہ میں قومی حق کی آواز بلند کرتی ہے۔
وہ کریمہ بلوچ جس کے گھر پر دھاوا بول کر والدہ پر تشدد کیا گیا جس کے بہنوں کو انکی قومی تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے پر ذہنی کوفت کا نشانہ بنایا گیا، جس کے گھر کو آگ لگائی گئی جس کے گھر پر متعدد بار فائرنگ کی گئی۔ جس نے اپنے نوجوان ساتھیوں کی لاشوں کے ساتھ دو قدم چل کر بلوچ روایت کو پامال کیا۔وہ کریمہ جس نے سو بااثر خواتین ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
بلوچ سماج جہاں قبائلی و نیم قبائلی ساخت کی وجہ سے خواتین سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے سے قاصر تھی تو بانک کریمہ نے مثل اندرا ادا کرکے خواتین کو سیاست میں متحرک کیا۔
دو ہزار آٹھ میں جب ریاستی کریک ڈاؤن نے بلوچ سماج میں پراسراریت کا آغاز کیا،نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور شہادت نے خوف کے ماحول کو جنم دیکر تنظیمی سرگرمیوں کو ماند کردیا تو بانک کریمہ نے چئیرمین زاہد، شہید رضا جہانگیر اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر تنظیم کو توانائی فراہم کی۔
تنظیم پر کریک ڈاؤن اور پابندی نے کافی حد تک تنظیمی سرگرمیوں کو ماند کیا تو بانک کریمہ نے سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کرکے نوجوانوں کو ہمت و حوصلہ عطا کیا اور تنظیم اور تحریک کو توانائی فراہم کی۔
بانک جیسی ہستیاں صدیوں میں جنم لیتی ہیں اور بلوچ سماج میں بانک کریمہ جیسی ہستیوں کا جنم قوم کے لئے سوگات سے کم نہیں، ایک جہد مسلسل جس نے ہزاروں تکلیف کو خندہ پیشانی سے قبول کیا کبھی قدموں میں لغزش نہ آئی اور نہ کبھی عزم و ہمت میں کمی دیکھنے میں آئی۔
لاپتہ افراد کے لئے آواز بلند کرنا ہو یا بلوچستان میں ریاستی آپریشن کے خلاف احتجاج بانک ہمیشہ صف اوّل کا کردار ادا کرتی رہی ایسے بہادر کرداروں کی شہادت بلوچ قومی تحریک میں متحرک نوجوانوں کے عزم و ہمت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بانک کی شہادت میں وہی ادارے ملوث ہیں، جنہوں نے ہر جگہ بلوچ کے لئے نو گو ایریا میں تبدیل کیا ہے لیکن یہ ادارے اس بات سے قطعی واقف نہیں کہ بلند کردار انسان امر رہتے ہیں اوراپنے کردار اور عمل سے ایک نئی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔بانک کریمہ بلوچ نے جہد مسلسل کی علامت بن کر بلوچ نوجوانوں کو ایک سمت عطا کی ہے جس پہ چلنا ہر بلوچ نوجوان اور خواتین کی قومی ذمہ داری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔