بلوچ خواتین سمیت لوگوں کی گمشدگی اجتماعی سزا کی انتہاء ہے – ڈاکٹر مراد بلوچ

590

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے پنجگور کے علاقے گچک سے خواتین اور بچوں کے اغواء اور گمشدگی کو اجتماعی سزا کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات بلوچستان میں تواتر کے ساتھ رونماء ہو رہے ہیں۔ پاکستان ہولناک بربریت اور نسل کشی سے بلوچ قوم کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنا رہا ہے تاکہ بلوچ قوم آزادی کی جدوجہد سے دست بردار ہوجائے۔ لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے جرائم سے قوموں کو دبایا نہیں جاسکتا ہے بلکہ ان کا یقین مزید پختہ ہوجاتاہے۔ وہ جانتے ہیں کہ غلامی کی اس زندگی سے چھٹکارا کئے بغیر ان مظالم سے چھٹکارا ممکن نہیں۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ ایک چھوٹی بچی سمانی بنت شئے جان، اجمل ولد شاہجان، درمحمد ولد حسن اور اس کی اہلیہ بی بی مریم، ان کے کمسن نواسے راشد ولد عوض، محمد کریم ولد یار اور اس کی اہلیہ شاہ پری، یارجان ولد دلمرا، وحید ولد قادربخش، سلیم ولد محمد، نذیر ولد امیت کو گچگ سے پاکستانی فوج نے اغواء کرکے خفیہ زندانوں میں منتقل کیا ہے۔ کئی دن گزرنے کے باوجود ان کی کسی قسم کی کوئی خبر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا مشرف دور میں بلوچستان کو ہڑپنے کے لئے سامراجی منصوبوں کے آغاز کے ساتھ بلوچ نسل کشی و جنگی جرائم کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے مرحلے میں اغوا، بدترین سزا اور غیرانسانی تشدد کے بعد لوگوں کو نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا جاتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہولناک صورت حال اختیار کرگئیں۔ پیپلز پارٹی کی زرداری حکومت کے دوران اس میں ”مارو اور پھینکو“ پالیسی کا اضافہ کیا گیا۔ نواز شریف نے ڈاکٹر مالک اینڈ کمپنی کے حکومت کے دوران لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفنانے کے عمل کا اضافہ کیا۔ آج یہی نیشنل پارٹی بلوچوں کے سامنے عمران خان دور حکومت میں گمشدگیوں پر چیخ و پکار میں مصروف ہے۔

بی این ایم سیکریٹری جنرل نے کہا کہ بلوچ قوم کیلئے کچھ نہیں بدلا ہے۔ نام نہاد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں لاپتہ افراد کے بارے میں کہا تھا کہ اگر میں وزیراعظم ہوتا ہوں تو کوئی لاپتہ نہیں ہوگا۔ بے شک بلوچ قوم کو یقین تھا کہ یہ سب سیاسی نعرے ہیں۔ آج عمران خان سرکار کے دوران خواتین اور بچوں کو اغواء اور گمشدہ کرنے کی پالیسی لاکر گزشتہ پالیسیوں میں ایک اور اضافہ کیا گیا۔ یہی اجتماعی سزا واضح جنگی جرم ہے۔

ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا میں مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے تنظیموں اور کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس پر فوری ردعمل دکھائیں کیونکہ آپ کی خاموشی پاکستان کو مزید گھناؤنے جرم کے لئے شہہ دیتا ہے۔ اس بے لگام اور دہشت گرد ریاست کو بلوچ نسل کشی سے روکنے کے لئے تمام تنظیموں اور اداروں کا آواز اٹھانا وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔