بلوچستان کے زرد اخبارات کیا تم جانتے ہو؟
تحریر : محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کی زرد صحافت کے پیروں کاروں
تمہارے اخبارات کی زرد سیاہی میں وہ چہرے تو اچھے لگتے ہیں جن چہروں کے جنم دن پر
اور ان کے پرکھوں کے مرن دن پر تم اپنی زرد سیاہی سےخاص ایڈیشن شائع کرتے ہو جن ایڈیشنوں میں جمالی سے لیکر ان بیروکریٹوں تک سب اپنی بھیانک ہنسی سے ہنس رہے ہوتے ہیں اور تم وہ اخبارات اپنے کاندھے پر سجا کر
ان سے ایسے انعام لینے جاتے ہوجیسے درباری کتے مالک کے کہنے پر بھونکتے ہیں اور مالک کے کہنے پر کاٹتے ہیں اور انعام پا تے ہیں بلوچستان کی زرد صحافت کے مالکوں تمہاری زرد سیاہی میں درد کی ماری
بہنیں بھی ڈوب جاتی ہیں
محبوبائیں بھی ڈوب جاتی ہیں
بچے بھی ڈوب جاتے ہیں
درد بھی ڈوب جاتے ہیں
سارے ماتم بھی ڈوب جاتے ہیں
سب صبحیں سب شامیں بھی ڈوب جاتی ہیں
پہاڑوں میں موجود اداس گھر بھی ڈوب جاتے ہیں۔
کئی کتابیں،دیوانگی،پاگل پن،انقلابیت بھی ڈوب جا تی ہے
صلیب بھی ڈوب جا تی ہے
اور مایوس مسیح بھی ڈوب جاتا ہے
پر مصلوب مائیں نہیں ڈوبتیں
درد پھر بھی رہ جاتا ہے۔
آنے والے کل کی طرح،چھاجانے والی رات کی طرح ! بلوچستان کی ڈمی اخبارو کیا تم میں اتنی جرات ہے کہ تمہاری زرد سیاہی کبھی درد سے ایسی خبر بھی لکھے کہ وہ ماں ہی مر گئی جس کے پیر گواہ تھے کہ اس نے اپنے رانجھے کے لیے کتنا سفر کیا۔کتنی مسافتیں جھیلیں، کتنے اشک بہائے اور در میں کیسے دید اٹکی رہی؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔