بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید کے بیان کے ردعمل میں کہا کہ بلوچستان کی تحریک آزادی اور عوامی حمایت سے بوکھلاہٹ کے شکار پاکستان کا کوئی بھی اہلکار کسی بھی پلیٹ فارم پر اپنی دہشت گردی کے فروغ اوربلیک میلنگ کو بطور خارجہ پالیسی استعمال کرنے کے عمل کو چھپانے کیلئے بلوچستان کا سہارا لیتے ہیں۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ امریکی میگزین ”کرسچن سائنس مانیٹر“ میں افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے سابق نمائندہ جیمز ڈوبنز کے ساتھ ایک مشترکہ بات چیت میں اسد مجید کا یہ اظہار کہ بلوچستان میں مداخلت کے بارے میں امریکہ واحد ملک ہے جو بھارت سے بات کرسکتی ہے، یہ ہماری سات دہائیوں پر محیط جدوجہد آزادی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان خود عالمی رہنماؤں کے سامنے اظہار پر مجبور ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسد مجید کے کمنٹس جیمز ڈوبنز کے اس خیال کے بعد سامنے آئے کہ ”بلوچستان کے خطے میں علیحدگی پسندوں کے لئے ہندوستانی حمایت کے الزامات واقعتا درست ہوسکتے ہیں، کیونکہ ماضی میں بھی بھارت پر اس طرح کی سرگرمی کا شبہہ رہا ہے“۔ اس خیال کو لیکر پاکستانی سفیر اسے امریکی حمایت اور تصدیق قرار دیتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوگی کہ نہ صرف بھارت بلکہ خود امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین سمیت تمام ممالک ہماری مدد کریں۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ اس طرح کی گفتگو سے ثابت ہوچکا ہے کہ ہماری جدوجہد مختلف فورمز پر ڈسکس ہو رہی ہے۔ یہ آج کی بیس سالہ جدوجہد کی تسلسل اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یوں اقوام متحدہ میں حالیہ حق خودارادیت اور غیر ملکی قبضہ اور تسلط پر قرارداد کے مطابق بلوچستان کے کیس کو اولیت حاصل ہونا چاہیے کیونکہ بلوچستان پر قبضہ اور اس قبضہ کے خلاف جدوجہد سے پوری عالمی برادری پوری طرح روشناس ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا خطے اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے تانے بانے پاکستان سے جاملتے ہیں کیونکہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز و منبع ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس امر کا ادراک کرنا چاہئے کہ بلوچستان کی آزادی کے بغیر خطے میں امن، خوشحالی اور پائیدار ترقی کا سفر کبھی بھی شروع نہیں ہوسکتاہے۔