بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود عالمی اداروں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے – بی ایس او آزاد

98

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل مہرزاد بلوچ نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی تسلسل کیساتھ جاری ہے. بلوچستان میں آزادی اظہار پر پابندی اور سیاسی سرگرمیوں پر قدغن عائد ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان جبری گمشدگی کا شکار ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں کی بربریت میں درجنوں مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں. بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے باوجود انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی خاموشی نہایت ہی تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں ریاستی عتاب بلا کسی علاقائی اور طبقاتی تفریق کے جاری ہے.ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوا ہے جبکہ سینکڑوں سیاسی کارکنان اور صحافی لقمہ اجل بنے ہیں. آزادی اظہار پر پابندی ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے اور جبری گمشدگی کا سلسلہ تسلسل کیساتھ جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری انسانیت سوز واقعات کو مہذب دنیا سے نا آشنا رکھنے کےلیے ریاستی ہتھکنڈوں میں آئے روز تبدیلی لائی جا رہی ہے. بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں صحافتی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے اور بلوچستان کے باسیوں کو جدید ذریعہ مواصلات سے محروم رکھا گیا ہے. ظلم و بربریت اور جسمانی اذیتوں نے خوف کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے جس سے نفسیاتی امراض جنم لے رہے ہیں۔

اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ جہاں ایک جانب ریاست بلوچ قوم کے نسل کشی میں ملوث ہے جبکہ دوسری جانب انسانی حقوق کے عالمی ادارے چپ سادھ کر اس عمل میں خاموش تماشی بنے ہوئے ہیں. عالمی اداروں کے خاموشی کی وجہ سے ریاستی بربریت میں مزید تیزی لائی جارہی ہے. لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بلوچ نسل کشی اور ریاستی بربریت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اس حوالے سے جوابدہ کریں۔