بلوچستان حادثوں کی زد میں
تحریر: نجیب یوسف زہری
دی بلوچستان پوسٹ
کوئٹہ ٹو کراچی چمن شاہراہ چار رویا کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے اور “خدشہ” ہے کہ 2021 تک دو سے تین ہزار اور انسان اس قاتل شاہراہِ پہ بے موت مارے جائینگے پھر یہ منصوبہ بھی ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ جس طرح ماضی میں ترقیاتی پروجیکٹس میں کیا گیا ہے، یہ صاف ظاہر ہے کہ کوئٹہ ٹو کراچی چمن شاہراہ مشکل ہے کہ اگلے 5 سالوں میں اس پروجیکٹ کا فیسیبلٹی رپورٹ آجائیگا، پچھلے کئی سالوں سے عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ بلوچستان کے نمائندے 2019 کے بجٹ میں اس منصوبے کی منظوری کا کریڈٹ خود کو اور اپنی جماعتوں کو دے رہے تھے۔ اور یہ منصوبہ محض ایک دھوکا تھا عوام کے ساتھ۔
بلوچستان پاکستان کا وہ بد بخت صوبہ ہے کہ جسے آج کے اس جدید دور میں وفاقی حکومت ڈبل وے سڑکیں نہیں دے سکتی، یہی وجہ ہے کہ اس صوبے کی قومی شاہراہوں پر اموات کی شرح میں گذشتہ چند سالوں سے بے پناہ اضافہ ہورہا ہے کیونکہ بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی سنگل سڑکوں پر ٹریفک زیادہ ہو رہی ہیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 47 فیصد شاہرائیں رکھنے والا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسی صوبہ کے لوگ روزانہ سڑکوں پہ بے موت مر رہے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کہنے پر آن لائن کھلی کچہری لگائی گئی۔ جن کی روشنی میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ممبرکوارڈینیشن عاصم امین نے اتھارٹی کے مرکزی دفتر میں این ایچ اے کے آفیشل فیس بک پیج کے ذریعے ای ۔ کچہری کا اہتمام کیا۔
سکھر، حیدر آباد موٹروے پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر تعمیری کام شروع کرنے کیلئے اقدامات زیر عمل ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مارچ 2021 تک یہ منصوبہ ایوارڈ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ چار رویہ پشاور۔طورخم ہائی وے منصوبہ کی نئی الائنمنٹ پر تعمیر کا کام 2021 کے آخر تک شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے قریب کہو کلومیٹر فلائی اوور کا ٹھیکہ بھی جولائی 2021 تک ایوارڈ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلکسر۔میانوالی روڈ کو مرمت کرکے بہتر بنانے کیلئے دستاویزی کام مکمل کیا جارہا ہے، جس پر 70 کروڑ روپے خرچ ہونگے۔ انہوں نے بتایا کہ انڈس ہائی وے کو دوہرا کرنے کا منصوبہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ جی ٹی روڈ کے مقابلے میں انڈس ہائی وے کا کراچی اور پشاور کے درمیان 450 کلومیٹر فاصلہ کم ہے۔ انڈس ہائی وے کو دوہرا کرنے کا کام تین مراحل پر مشتمل ہے، جس کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔
جب بلوچستان کے منصوبے کی باری آئی تو عاصم امین صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کراچی۔کوئٹہ۔چمن شاہراہ کو بھی چار رویہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ 2021 تک یہ منصوبہ بھی ایوارڈ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اور سب سے زیادہ بلوچستانی عوام انتظار میں تھی کے کب فیسیبلٹی رپورٹ آئیگی کب کام اسٹارٹ ہوگا اور ہر بار کی طرح اس بار بھی اگلے سال تک انتظار کریں گے اور ہزاروں کی تعداد میں نعشیں گنوادیا جائیگا بلوچستان کی عوام کو۔
جس طرح بلوچستان کے عوام کو یقین دہانی کرائی گئی تھی جس طرح سے بلوچستان کے عوام کو سبز باغ دکھائے گئے تھے۔ ہم یہ بھول گئے تھے کہ ہم ایک بدبخت بدنصیب صوبے سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے نصیب میں صرف مرنا لکھا ہے۔ بہرحال ہمیں ہمیشہ کی طرح وفاقی حکومت سے یہی توقع تھی۔
ہم بلوچستان کے عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے جائز اور بنیادی مطالبات کو ہر فورم پر اٹھائے یہ ہمارا جمہوری حق ہیں ہم ایک بار پھر سے باشعور عوام سیاسی مذہبی سماجی شخصیات سے اپیل کرتے ہیں وہ اس بنیادی مسئلے پہ آواز اٹھائیں تاکہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہنگامی طور پر بلوچستان کے خونی شاہراہوں پر کوئی عملی اقدام کریں۔ ہمیں اپنے پیاروں کی زندگیاں بچانے کے لیے آواز اٹھانا ہے یا روڈوں پر مرنا ہے یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہیں۔
بالخصوص میں بلوچستان کے تمام صحافی حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے کو اٹھائیں اور عوام کا سہارا بنے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں