ایک سوچ، فکر اور نظریہ
تحریر: دارہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک سوچ،نظریہ اور فکر کہ جس نے اپنا سب کچھ گھربار،عزیز واقارب اس وطن کے لیے قربان کیا، یہاں تک کہ اپنے ملک اور گاوُں کو بھی چھوڑ دیا ۔ ملک بدر ہوکر اپنی قوم کے مظلوم و محکوم عوام کے خاطر سامراج قوتوں کےانکھوں میں آنکھیں ملا کر لڑ رہی تھی ۔ شہید بانک کریمه بلوچ عورتوں کے حقوق کی بھی الَم بردار تھی۔
شہید بانک کریمه بلوچ کی زندگی کو مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنی بہادر، ذہین اور باحیاء عورت تھی۔ قومی جذبے سے سر شار ،وطن کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنےوالی بیٹی تھی۔ ان کی تعلیمات و ہدایات اور ان کی سیاسی سوچ و فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ایک قدامت پسند معاشرے میں رہتے ہوۓ انھوں نے کبھی حوصلہ نہیں ہاری، بلکہ اس کے باوجود عورتوں کے حقوق، مظلوموں کے حقوق اور بلوچستان پر جبر ی قبضے کے خلاف جنگ لڑ رہی تھی۔ وہ نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا بھر کے پسے ہوئے طبقوں کی حق میں تھی۔ بلخصوص بلوچ اور پشتون کے بنیادی حقوق اور ان کے حق خودرادیت کو انٹرنیشنل سطح تک پہنچا نے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔
بلوچستان میں اس کی جان کو بہت خطرہ تھا کئی دفعہ ان کے گھر پہ چھاپے لگے، جھوٹے الزامات اور مقدمات بھی شامل ہیں۔ بہت سے مصیبتیں برداشت کیں۔ پھر مجبوراً ملک سے سے باہر جانا پڑا اور وہ کینیڈا چلی گئی، وہاں بھی بلوچ طلبہ تنظیم اور بعد میں (بی این ایم) کی پیلٹ فارم سے بلوچوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم سے دنیا کو اگاہ کرتی تھی ۔
یقیناً دشمنوں کو یہ بات سمجھ میں آنا چاہئے، کہ بانک کریمه بلوچ کو شہید کرتے ہوئے یہ مت سوچے کہ وہ کریمه بلوچ صاحبہ کو شھید کر کے بلوچوں کو خاموش کردینگے۔ کیونکہ کریمہ بلوچ ایک سوچ فکر ،اور نظریہ کا نام ہے۔ بلکل اس کے جانے کے بعد کوئی اس کی جگہ نہیں لے سکتا مگر اس نے اپنے جانے کے بعد ہزاروں کریمہ پیدا کئے۔ تاریخ ان کے لمحہ لمحہ کو یاد کرتا رہیگا، اور بلوچ قوم کو ناز کرنا چاہئے اپنے اس بہادر بیٹی پر۔ اس سے یہ بات ظاہر ھوتا ہے کے دشمن کو کتنا خوف تھا ایک معصوم عورت سے ،بزدل دشمن کو عورت ہونے کا خیال نے بھی نہیں روکا، اور کتنی بےدردی سے شہید کیا۔
یہ واقعہ خاص طور پر کینیڈین حکومت،(یو این) اور دوسرے عالمی ادارے برائے انسانی حقوق کے منہ پر تمانچہ اور باعث شرم ہے, کہ ایک عورت کو دنیا کے امن پسند، پُر امن ملک اور خطے میں بے دردی سے شہید کیا جاتا ہے اور وہ یہ سب خاموشی سے اور چپ چاپ بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت کو چاہیئے کہ اس واقعے کی صاف و شفاف انکوائری کرے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچاۓ۔ یہ کینیڈین عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے حکومت سے اپیل کر کے کینیڈا میں مقیم بلوچوں کے تحفظات کو دور کریں ایسا نہ ھوکہ یہ دہشتگرد ان کے جانوں کے لیے خطرہ بنیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں