انتظار کے دو سال
تحریر: دروشم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
راشد مجھے خوف آتا ہے جب میں کہیں سے یہ سنتی ہوں کے فلاں کے بھائی کو اٹھالیا گیا ہے، میرے کلاس فیلو کے بھائی کو بھی اسی طرح غائب کردیا گیا۔ راشد تم جانتے ہو تمہارے ان کاموں سے کچھ لوگ ہم سے ناراض ہیں، وہ کہتے ہیں راشد سے کہوں کے بلوچ بلوچ کا رٹہ لگانا چھوڑ دو اور جاکر اپنے پڑھائی پر دھیان دو یا اپنے دوسرے رشتہ داروں کے طرح سردار کی نوکری کرو۔ راشد تم انکی بات مانتے کیوں نہیں؟ میں تو یہ سوچ کر ہی غم سے ڈوب جاتی ہوں کہ تم سے دو پل دور رہ سکوں اب اگر تم اس طرح ہم سے دور کردیے گئے تو ہماری باقی زندگی تو آگ سے کم نا ہوگی۔
تم جانتے تو ہو ہم نے اس سے پہلے ان ظالموں کے ہاتھوں کیسے کیسے اذیت سہے، یہاں تک ہمارے اپنوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں در بدر رہنے پر مجبور کردیا گیا اور اماں یہ سب کیسے جھیل سکتی ہے، کزن مجید جان کے شہادت پر حالات یہاں تک پہنچ گئے تھی کے کھانا حلق سے اتارنا مشکل ہوگئی تھی، تمہارا اس طرح کھل کر ان کے خلاف بات کرنا تمہارے لئے مشکل پیدا کرسکتا ہے اسلئے انکی بات مان لو۔
میں جانتی ہوں تم کہو گے میرا وطن، میرے لوگ۔ میں جانتی ہوں پر کیا تم یہ سب دوسروں کی طرح انجام نہیں دے سکتے جس سے تمہیں کوئی نقصان نا ہو۔
تمہیں وہ کتاب تو یاد ہوگی جو میں نے تمہیں پڑھنے کو دیا تھا، اسے پڑھتے ہوئے تمہیں میں نے اس بات کے طرف اشارہ دیا تھا جہاں فیودور دوستوفسکی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ادراکِ زندگی اور شعورِ انسانی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے پھر انسان یا تو ہمیشہ کی خاموشی میں جیتا ہے یا ہر چیز سے بغاوت کردیتا ہے۔ میں سب کرسکتا ہوں میں خاموش رہ سکتی ہوں میں خوف سے واقف ہوں میں تو یہ بھی جانتی ہوں کے میرے لیے جو لکھا سوچا گیا ہے وہی انجام پانا ہے، دیکھو تم جو سوچ رہے ہو بالکل میں بھی وہی سوچتی ہوں، کال کوٹھڑی میں تو ہر دم اس سوچ میں ہوں کہ کوئی کال کوٹھڑی میرے انتظار میں ہے، میں کہیں بھی سکون نہیں پاتا، میں جہاں جاتی ہوں جس ماحول میں رہتی ہوں یہ بات مجھے ستاتی رہتی ہے کہ اگلے ہی پہل نقاب پوش یہاں پہنچ کر مجھے دور کسی ویران زندان کے نظر کر دینگے۔
پر تم جانتی ہو میں چاہتے ہوئے بھی خاموش نہیں رہ سکتا، میں نے جن کے ساتھ وقت گذارا، میں نے جن کے ہر قول و فکر کو انجام دینے میں ساتھ دیا وہ بھی تو آج زندانوں میں قید ہیں، میں انکے ہمراہ اس نظریے کے ساتھ رہا میں نے ان سے یہ کہا کہ قوم وطن کے قول جو تم نے کی اسکا پاسدار میں بھی ہوں ان سے ملتے وقت میں نے اسے یہی کہا قومی جدوجہد میں ہم ساتھ ہیں آج جب وہ اس قول پر شہید ہوئے یا زندان کے نظر ہوئے تو میں کیسے پیچھے ہوجاؤں۔
یہ تو تم اچھے سے جانتے ہو، حئی کے ساتھ میں پلا بڑھا، مجید سے کئے گئے وہ قسم وہ وعدے، تم مجھے بتاو یہ سب میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں کہ وہ آج اس قول کے پاسداری کرتے ہوئے شہید ہوئے زندانوں میں چلے گئے، میں پیچھے ہوکر وعدہ خلاف بن جاوں؟ میں یہ کر ہی نہیں سکتا میں سب جانتے ہوئے بھی اس قوم کی درد کو اپنا درد سمجھنا چھوڑ نہیں سکتا، زندگی میں اب کوئی خواہش نہیں بس اب دو سانسیں ہیں وہ میں نے وطن کے نام کردیئے۔
ہاں چھوٹے اگر کبھی ایسا وقت آ بھی جاتا ہے تو میں تم سے یہ امید باندھونگا کہ تم میں سے کوئی بھی کمزور نہیں پڑیگا اور جس مقام سے مجھے خاموش کردیا گیا اسی مقام سے تم میری آواز بنو گی، بس اتنا ہو یہ قول جو میں نے کیا ہے، چھوٹے یہ قول کا تسلسل ٹوٹنا نہیں چاہیے، یہی امید میں تم سب سے رکھتا ہوں۔
راشد انتظار کے یے طویل دو سال رنج غم یادیں سب آج میسر ہیں بس تمہاری مسکان کی یادوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پر ہاں ایک امید ضرور زندہ ہیں کہ وہ تسلسل رکا نہیں، وہ تسلسل آج امی و ماہ زیب کے شکل میں جاری ہے۔
ہاں راشد ماہ زیب بہت بڑی ہوگئی ہے اب۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں