امیر آزاد پنہور
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
امیر آزاد پنہور،آزاد نہیں!
آزاد تو آریسر تھا
اپنی باتوں میں
اپنے حُلیے میں
اپنی تصنیفوں میں
اپنی مہ میں
اپنی لے میں
حتیٰ کہ سگریٹ کے کشوں اور برانڈوں میں
وہ چاہتا تھا تو سستے سے،سستا سگریٹ پیتا،چاہتا تو مہنگے سے مہنگا سگریٹ پیتا،
چاہتا تو بیڑی کا ذائقہ چکھتا چاہتا توکسی بھیل،میگواڑ،کولھی کے پاس بیٹھ کر اس کی سُلفی یا حُقے سے کش لگا لیتا
پر وہ اپنی دھرتی پر آزاد نہیں تھا!
آریسر جانتا تھا کہ وہ اپنی دھرتی پہ آزاد نہیں،وہ اپنی دھرتی پہ ایسے ہی غلام تھا جیسا اور اس کے جسم پر وہ زنجیریں پڑی ہوئی تھیں جو ہما ری آنکھ نہیں دیکھ پا تی تھی ایسی زنجریں جیسی زنجیریں بھبھورو صاحب نے بعد از مرگ اپنی مٹی کی قبر پر لگانے کی وصیت کی تھی۔اس لیے آریسر نے کبھی اپنے نام کے ساتھ آزاد کا حلقہ نہیں جوڑا حالانکہ آریسر مولانا عبدالکلام آزاد کا عاشق تھا۔وہ ویسا ہی لکھتا تھا جیسا مولانا آزاد نے لکھا اور وہ ایسا ہی بولتا تھا جیسا مولانا آزاد بولتا تھا،پر پھر بھی کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جو ہما رے آریسر کو ہند کے مولانا سے معتبر کرتی ہیں
بھلے مولانا گرو ہو اور آریسر چیلا
پر مولانا کلام کو کبھی وردی برٹش وردی والوں نے گالی نہیں دی،اسے دبوچہ نہیں۔اس کے گھر پر چھاپا نہیں مارا۔اس کی بیگم کے دوپٹے سے اس کے ہاتھ پشت پر نہیں باندھے اور رہ جانے والے دوپٹے سے اس کی آنکھیں نہیں باندھی۔اسے بھا ری جوتوں کے تھڈے نہیں ما رے،اس دیش دروہی نہیں کہا۔اس کا سرکس نہیں نکالا،اس کی بیوی کو گالی نہیں دی۔پر یہ سب کچھ سندھ کے آریسر کے ساتھ ہوا
اسے گالیاں دی گئیں،اس کے گھر پر چھاپے ما رے گئے،اس کے ہاتھ پشت اسی کی بیگم کے دوپٹے سے پشت پر باندھے گئے،رہ جانے والے کپڑے سے اس کی آنکھیں باندھی گئیں،اس کی بیگم کو گالیاں دی گئیں۔اسے عقوبت خانوں میں رکھا گیا۔اس کے معصوم سانولے چہرے پر چماٹیں ماری گئیں۔اس کے نحیف جسم پر بھا ری بوٹوں سے لا تیں ما ری گئیں،اس کے آزادی کے ایمان کو بار بار تشدد کی لیبارٹری میں جانچا گیا۔پر پھر بھی آریسر نے اپنے نام کے ساتھ آزاد کا لا حقہ نہیں لگایا۔
آریسر جانتا تھا وہ غلام دیس کا غلام باسی ہے اور اس کا سفر آزاد ی کے لیے تھا۔
وہ شاہ کو پڑھنے کی حد تک تو آزاد تھا پر وہ شاہ کے پیغام کی تشریح، کرنے کو آزاد نہیں تھا۔
وہ جی ایم سید کے پیغام کو سمجھنے کی حد تک تو آزاد تھا پر سید کے پیغام کو ماروؤں کو سمجھانے کی حد تک آزاد نہ تھا۔
اس لیے آریسر نے جب بھی شاہ کی جدید تشریح کی تو بھالوا کی بھٹوؤں پر چھاپا پڑ جاتا تھا۔
اس نے جب بھی سید کے پیغام کو سندھ کی مانگ میں سندور کی طرح سجانے کی کوشش کی تو اس کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے جا تے اور اسی کی قمیض سے اس کی آنکھیں ڈھک دی جا تیں
پر پھر بھی آریسر کو اپنے معصوم چہرے پر چماٹیں کھانا منظور تھا
وردی والوں کے ہاتھوں گالیاں اور جسم پر تھڈے کھانا منظور تھا
اپنے ہاتھ پشت پر اذیت کے ساتھ بندھنا منظور تھا
اپنی ہی قمیض سے اپنی ہی آنکھیں ڈھک جانا منظور تھا
اپنے نعیف کمزور جسم پر تشدد برداشت کرنا منظور تھا
کئی کئی ماہ لاپتہ رہنا منظور تھا
پر یہ منظور نہ تھا کہ وہ شاہ کے کلام کی جدید تشریح نہ کرے
یہ منظور نہ تھا کہ وہ سید کے پیغام کو عام نہ کرے
یہ منظور نہ تھا کہ وہ کارونجھر کی کور سے دور ہو جائے
یہ منظور نہ تھا کہ وہ جیسی تیسی ہی صحیح پر اپنے لوگوں کی روح میں سندھ داخل نہ کرے
سید نے سندھ کا پتا بتلایا پر سندھ کے باسیوں کے کمزور جسم میں سندھ کو داخل آریسر نے کیا
سندھ کی پاٹ شالہ میں آریسر نے سندھ کے نوجوانوں کو سندھ کا عشق پڑھاتا
کیا سندھ کی پاٹ شالہ میں سندھ کا عشق پڑھانا آسان ہے؟
ہر گز نہیں یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا گلوٹین یا دار پر سر رکھا ہو اور محبوب کے گالوں کا بوسہ بھی لینا ہو
تھوڑی دیر ہو جائے تو سر دھڑ سے دور جا گرے
پر آریسر نے کمال عشق سے سندھ کے نوجوانوں کو اس گلوٹین یا دار پر سندھ کے عشق کے سبق پڑھائے
کافی کامیاب ہوئے آج ان کی قبروں پر چاند سلامی دیتا نظر آتا ہے
مور ناچتے ہیں
اور سورج انہیں دیکھ کر اپنی آنکھیں جھکا دیتا ہے
اور کچھ امیر پنہور جیسے ہیں
اب اسے سندھ آزاد نہ لکھے یہ سندھ میں غلامی کے لائق بھی نہیں
سندھ میں آزاد آریسر جیسے لوگ ہیں
اور غلامی عطا محمد بھمبرو صاحب جیسے لوگوں کے نصیب میں آئی جو مرتے یہ وصیت کر گئے کہ ان کی قبر کو زنجیروں سے جکڑ دیا جائے
آریسر صاحب کے جسم پر تو تشدد کے اتنے نشان تھے جتنے تھر میں کانڈیرو بھی نہیں۔
پر امیر پنہور کو تو کبھی وردی والوں نے روک کر نام تک نہیں پوچھا
پھر آریسر صاحب کے کاز سے اتنا بڑا فراڈ کیوں؟
تو یہ اس قافلے مین کیسے چل سکتے جو قافلہ چلے تو عاشقوں کا ہے
اور رکے تو شہیدوں کا
امیر پہنور نہ چل سکا ہے اور نہ رک سکا ہے
یہ تو ٹہر ے ہوئے پانی کی مثل ٹہرا ہوا ہے
ایسے لوگ گلو ٹین یا دار پر محبوب کا بوسہ نہیں لیتے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔