الوداع بانک
تحریر: میرین زہری
دی بلوچستان پوسٹ
بانک کریمہ بلوچ کی شہادت نے جو منظر نامہ بلوچ قومی تحریک مخالفین کو دکھایا، وہ اس کی امید بہت پہلے کرچکے ہونگے کیونکہ مخالفین بانک کریمہ بلوچ کی بلوچستان کے طلباء سیاست میں کردار سے ضرور واقف ہونگے، بانک کریمہ بلوچ بلوچ قومی سیاست میں خواتین کے لئے ایک رول ماڈل ہونے کے ساتھ ایک سنجیدہ پارٹی زمہ دار تھی –
انہوں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ نسل کشی و بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف ریلیاں نکالیں، جس میں بڑی تعداد میں خواتین و طلباء شامل ہوتی تھیں اور کریمہ بلوچ ان مظاہروں کی کیمپئن بھی خود جاکر گھر گھر کیا کرتی تھی-
بانک سے پہلی بار 2012 میں کراچی میں ملاقات ہوئی، جب بی این ایف نے میڈیا کی جانب سے بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کرنے کے خلاف کراچی میں ایک احتجاجی ریلی نکالی تھی جسے لیاری آٹھ چوک سے نکل کر کراچی پریس کلب تک جانا تھا، اس احتجاج کی قیادت بانک کریمہ بلوچ ہی کررہی تھی جس میں بی ایس او ازاد کے حب ، اوتھل ، کراچی کے زونوں و دیگر بلوچ تنظیموں کے طلباء و خواتین بڑی تعداد میں شامل تھیں-
کریمہ بلوچ بلوچ قومی تحریک میں سیاسی حوالے سے بہت متحرک تھی، جب وہ بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن بن گئی تو ان سخت حالات میں وہ اکثر زونوں میں اجلاس طلب کرکے خود بھی شامل ہوجاتی تھی انکی سیاسی ایکٹویزم سے بہت سارے خواتین متاثر ہوکر سیاست میں شامل ہورہی تھیں-
بانک ایک ایکٹو سیاسی لیڈر تھی، بی ایس او آزاد پر سختیوں کے بعد اکثر کریمہ بلوچ ہی بلوچستان سمیت کراچی و دیگر علاقوں میں سیاسی حوالے سے دورے کیا کرتی تھی وہ شخصی طور پر روایتی سماج سے مختلف انداز رکھتی تھی انہوں نے پارٹی اختلافات کے دوران تمام زونوں کا دورہ کرکے ان اختلاف و معاملات کے خاتمہ پر کام کرتی رہی-
بی ایس او آزاد انفارمیشن سیکریٹری معاملے کے بعد جب ہم بھی دیگر دوستوں کے ساتھ بی ایس او آزاد کے بائیکاٹ بلاک میں شامل ہوگئے تو اس وقت بھی بانک کریمہ ہی مرکز کی جانب سے بائیکاٹ پر جانے والے دوستوں سے مسلسل رابطے میں تھی اور وہ بائیکاٹ زونوں کو پھر سے مرکز کے ساتھ کام کرنے کی خواہاں تھی، جن پر وہ بائیکاٹ پر جانے والے دوستوں سے رابطہ کرکے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کررہی تھی –
با صلاحیت کریمہ بلوچ کی سائنٹفک سیاسی ایکٹویزم و سابقہ لاپتہ بی ایس او آزاد چیئرمین زاہد کرد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد کراچی میں بھوک ہڑتال کیمپ نے بلوچستان سے باہر کے تنظیموں و میڈیا کو بلوچستان کی جانب متوجہ کرنے میں بہترین کردار ادا کیا اس دوران وہ تنظیم کو مزید متحرک کرکے زونوں میں اجلاس بلانے و میڈیا ہاوسز کو بلوچستان پر بریف کررہی تھی-
بانک کریمہ بلوچ کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک مزید مظبوط و مستحکم ہوگئی، کیونکہ بانک نے اپنی زندگی میں بلوچ سیاست میں روایتی انداز کو ختم کرکے بلوچ خواتین کے لئے سیاسی اسپیس پیدا کی ہے اور اسکے باعث بلوچ سیاست میں خواتین کا کردار مزید مظبوط اور زیادہ ہو رہا ہے –
بانک کریمہ بلوچ، بلوچ قومی سیاست میں خواتین کی شمولیت و کردار ادا کرنے پر زور دیتی تھی، وہ کہتی تھی کے اگر بلوچ قومی تحریک میں خواتین کا کردار نا ہوگا تو کامیابی کبھی برابری کی نہیں ہوگی اسلئے کامیابی کی شرط خواتین کا بلوچ سیاست میں حصہ ڈالنا ہے اور آج انکی شہادت کے بعد بھی بلوچستان کے ہر تنگ سماجی و تنگ سیاسی ماحول سے بلوچ خواتین نکل کر کریمہ بلوچ ہونے کا نعرہ لگا رہی ہیں-
بانک کریمہ نے اپنے کردار و شخصیت سے قومی قرض ادا کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئی، الوداع بانک!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں