اقتضا – برزکوہی

558

اقتضا

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی بھی تحریر قلمبند کرنے سے پہلے ایک بار یہ خیال ذہن میں ضرور گردش کرتا ہے کہ میں کس حیثیت سے الفاظ کا بوجھ قلم کے کندھوں سے اتار کر کاغذ پر بکھیر رہا ہوں؟ اگر میں انتقالِ خیال کیلئے ذریعہ تحریر استعمال کررہا ہوں، تو اس انتقال سے اپنے لیئے کیا مرادیں ہیں؟ کیا مراد بطور لکھاری دھاک جمانے کی ہے؟ دانشوری کا چوغہ چڑھانے کی ہے؟ مقابلہ بازی ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ مقصد صرف ایک ہے کہ اپنے خیالات، تجربات اور مشاھدات کو آگے منتقل کیا جائے۔ ایسا کرنے کے دوران کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود کو دہرارہا ہوں، کبھی تحریر کا معیار برقرار رکھنے میں ڈگمگاہٹ ہوجاتی ہے، کبھی نفس مضمون پر پورا اترنے میں کاہلی ہوجاتی ہے، لیکن یہ تمام غلطیاں و کوتاہیاں شاید نظر انداز کی جاسکیں کیوںکہ ہم شوق کے لکھاری نہیں، ہنر کے لکھاری نہیں، ضرورت کے لکھاری ہیں۔ اس امر کی ضرورت کہ جن کا ہنر ہے لکھنا وہ جن ضروری أمور پر سچائی سے لکھنے سے کتراتے ہیں، ہم جیسے ضرورت کے لکھاری بغیر ہنر کے وہ خلا پر کرنے کی کوشش کریں۔

بات ہورہی تھی قومی تقاضوں، قومی کردار اور قومی ضروریات کی، ہم میں ایک عموعی رجحان یہ ہے کہ قومی تقاضے، کماحقہ قومی کردار اور ضروریات کو پورا کرنے کی خواہش، ہم ہمیشہ خود میں نہیں بلکہ کسی دوسرے میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی تمام معروضی حالات اور ان حالات کے تقاضات اور ان تقاضوں پر پورے اترنے کیلئے کماحقہ کردار پر سیر حاصل بحث کرسکتا ہے، نقطہ بہ نقطہ پورا بیان کرسکتا ہے کہ ضروریات کیا ہیں، لیکن ان تقاضوں پر پورا کسے اترنا ہے؟ اسکیلئے ہم اپنی جگہ کسی اور کو فرض کرتے ہیں۔

دوسری بات جو ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے، وہ یہ کہ ہم جہاں بھی ہوں اور کردار رائی کا ہو، لیکن ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم قومی تقاضوں کو پورا کررہے ہیں یا خدا خدا کرکے، کوئی یہ مان لے کہ وہ کوتاہی کا شکار ہے تو پھر یہ مان کر بھی اپنا کردار پورا نہیں کرتے ہیں، بلکہ یہاں یہ ماننا کہ میں غلط ہوں یا کسی نے اتفاق سے ایک بار غلطی سے خود پر ایک دفعہ خود تنقیدی کرلی تو پھر اسے بھی اپنی کردار کی بالیدگی سمجھ کر قوم کے اوپر احسان سمجھا جاتا ہے، اور ساتھ میں کسی پر بھی الٹی سیدھی نقطہ چینی کرنے کو اپنا جنمی حق سمجھنا شروع کرتا ہے۔

آج ہم میں سے اکثر کیا یہ سوچتے ہیں کہ ہم جدوجہد کا تو حصہ بنتے ہیں، مگر صرف حصہ ہی ہوتے ہیں، پھر ماضی میں کچھ نہ کچھ جو کیا تھا، انہیں بستر کی طرح گول باندھ کر اس پر تکیہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ جی میں تو آسمان سے تارے توڑ کر لایا تھا۔ میرے خیال میں ہم اپنی زانت و شعور کی بنیاد پر یہ تعین کرتے ہیں اور کرچکے ہیں کہ مجھے اس متعین حد سے آگے نہیں بڑھنا ہے، یہ جگہ اور حد بس مکمل و پورا قومی تقاضہ، ضرورت اور قومی کردار ہے، اگر نہیں بھی ہے لیکن میرے لیے ہے کیونکہ میرے علم و شعور کی سطح اور معیار یہاں سے شروع ہوتا ہے، اور یہاں پر رک کر ختم ہوجاتا ہے۔ میں یہ نہیں سوچتا ہوں کہ یہ مکمل نہیں، یہ پورا نہیں، کیونکہ میں اس لیے نہیں سوچتا ہوں اور نہیں سمجھتا ہوں کیونکہ اگر میں نے اپنے سوچ و شعور کو اس سے آگے بڑھنے کی اجازت دی تو پھر مجھے عمل بھی اس حد سے نکل کر، بڑھ کر، زیادہ کرنا پڑے گا۔

گوکہ قومی آزادی کی جنگ جذبہ، قربانی، مخلصی، محنت اور ایمانداری سے جاری و ساری ہے اور امید ہے منزل تک جاری و ساری رہیگی، مگر آج ہم سے قومی جنگ کے تقاضے بہت زیادہ ہیں، ان قومی تقاضوں پر پورا اترے بغیر ہم اس جنگ کو نا منظم کرسکیں گے اور نا جیت سکیں گے۔ جب ہمارے شعور و علم کی سطح سطحی پن کی خول سے نکل کر اس سطح پر ہو جہاں ہمیں یہ نظر آئے کہ قومی آزادی اور قومی انقلابوں کی جنگوں اور تحریکوں میں قیادت سے لیکر جہدکاروں تک اپنا قومی کردار کیسے اور کس طرح نبھایا جاتا ہے۔ تب جاکر ہم بخوبی موازنہ کرسکتے ہیں اور حقیقت کو جان سکتے ہیں کہ جنگوں اور تحریکوں میں قیادت سے لیکر عام جہدکار کا قومی معیار اور قومی کردار کیسا ہوگا؟

آج ہم اپنی ذاتی وانفرادی ترجیحات، ضروریات، کاموں کی خاطر مکمل ہائی الرٹ، چست و چوبن، چوکس، ترند و تیز رہتے ہیں جبکہ قومی ترجیحات اور کاموں میں سستی، کاہلی اور لاپرواہی کی آخری حدود میں داخل ہونے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ جب بھی قومی ذمہ داری اور قومی کام و مشن نہ ہو، خراب ہو، نقصان ہو، دیر ہو کوئی درد سر نہیں، جب انفرادی و ذاتی کام نہ ہو، دیر ہو، تو زمین اور آسمان ایک ہونگے اور غصہ اور جذباتیت کی سطح اس حد تک ہوگا کہ جیسے ابھی دشمن آنے والا ہے اور یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔

پھر بھی ہم شعوروعلم، پختگی، مخلصی، بہادری، بے غرضی کی داستان اور لوری ایسے مزے کے ساتھ سناتے ہیں، جیسے ہم سے بڑا انقلابی کوئی نہیں ہے۔

اس پر سوچنا چاہیئے کہ کب ذاتی ترجیحات کو قومی ترجیحات پر برتری حاصل ہوجاتی ہے؟ انسان کسی عمل میں اس وقت سرگرمی سے شریک ہوتا ہے، اسکے بابت اس وقت حساس ہوتا ہے، اس وقت اسکے ممکنہ نتیجے کے بابت پریشان یا خوش ہوتا ہے، اس وقت جذباتی وابستگی رکھتا ہے، اس وقت مرنے و مارنے کیلئے تیار ہوتا ہے، جب وہ اس عمل کے نتیجے کے نفع و نقصان کو مکمل محسوس کرسکتا ہے۔ اب اس نفع و نقصان کے إحساس کا دائرہ اتنا ہی طویل ہوتا ہے جتنا اس فرد کے شعور کی وسعت۔ ذات کے دائرے میں بند شخص کے شعور کی پہنچ نفع و نقصان کو اسکے ذات تک ہی دیکھ سکتا ہے، اسلیئے کسی عمل سے منسلک جذبات اسے اپنے ذات پر آکر محسوس ہوتے ہیں، اسی شعور کا پیمانہ جب وسیع ہوجاتا ہے تو وہی شخص وہی نفع و نقصان کے جذبات ایک پوری قوم کیلئے محسوس کرنے لگتا ہے۔

میں خود سے لیکر تمام جہدکاروں تک کو یہ کہتا ہوں کہ کوئی لاکھ دلیلیں و تاویلیں پیش کرے، میرا ذہن کبھی قبول نہیں کرتا ہے، اگر یہ سوچ انتہاء پسندی ہے، یہ انتہاء پسندی آخری دم تک ہی رہیگا کہ جب تک کسی جہدکار کی اولین ترجیح ذات ہوگی، قومیت نہیں تو اس جہدکار سے امید و توقع رکھنا ریت کا دیوار تعمیر کرنے کے مترداف ہے، شاید مجبوری میں کوئی ریت سے دیوار تعمیر کر بھی لے مگر وہ وقتی ہی ہوگا، مستقل نہیں۔

ہر جہدکار، مکمل جہدکار اور ہر انقلابی مکمل انقلابی بن سکتا ہے بشرطیکہ اپنے اندر تبدیلی لانے کے عمل کو شروع کردے بلکہ تیز کردے۔ ہاں اگر کوئی دانستہ طور پر یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ بس یہ حدوحدود کافی ہیں، آگے بڑھنے اور خطرہ مول لینے سے خطرہ ہے، پھر ایسے ذہنیت پر ماتم ہی ماتم ہو سکتا ہے۔ ایسے جہدکار آپکے ساتھ ہوسکتے ہیں، ساتھ چل بھی سکتے ہیں لیکن نا یہ کبھی آپکا حصہ ہوسکتے ہیں اور نا تاریخ کا۔

تاریخ سے واقفیت حاصل کرنا، تاریخ پڑھنا اور تاریخ سمجھنا آسان ہے، مگر تاریخ میں تاریخ بن کر آنے والوں کے لیے ایک راستہ اور ایک روشنی بن کر ابھرنا اتنا آسان نہیں، یہ محض تب ممکن ہے، جب انفرادیت کو قربان کرکے اجتماعیت کو اپنایا جائے۔

بلوچوں کی یہ جنگ آج خود و خودی کو قربان کرنے والے ایسے ہی بلوچ نرمزاروں کی وجہ سے جاری ہے اور جنگ جاری رہیگی، امید و یقین بھی یہی ہے کہ جنگ کی شدت خود وہ زرخیز میدان ہوگی، جو اپنی کوکھ سے ہمیشہ مکمل مخلص، بہادر، بے غرض، ایماندار، سپوت جنم دیکر آزاد وطن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریگا اور نیم انقلابی، وقت پاس جہدکاروں کو زمین بوس کردیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔