تیرہ نومبر یوم شہداء کی مناسبت سے ویبنار اور مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ بی این ایم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ 13 نومبر یوم شہداء کی مناسبت سے مرکزی سطح پر آن لائن ویبنار اور بلوچستان کے علاوہ کئی ممالک میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ آن لائن پروگرام سے پارٹی چیئرمین خلیل بلوچ، ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، ممتاز انسانی حقوق کے کارکن پیٹر ٹیچل، نیشنز ودآؤٹ اسٹیٹ کے رہنماء گراہم ولیمسن، ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر نصیر دشتی، بانک کریمہ بلوچ اور ورلڈسندھی کانگریس کے رہنماء ہدایت بھٹونے خطاب کیا۔ مرکزی سطح کے ایک اور پروگرام میں پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل استاد بابل لطیف بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبر ماہ گنج بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبرظفربلوچ سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ بلوچستان میں مختلف علاقوں میں پروگرام کے علاوہ جرمنی کے شہر ہنوفر میں شہداء کی یاد میں چراگان کیا گیا۔ اس دوران شہداء کی تصاویر، موم بتیاں اور پھول سجائے گئے۔ اس میں بی این ایم کارکنان اور مقامی لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایک میوزیکل پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف انقلابی گلوکار میراحمد بلوچ اور ساتھی فنکاروں نے بلوچ شہداء کے یاد میں گیت پیش کیئے۔
ویبنار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ میں ڈاکٹر ہدایت بھٹو، ڈاکٹرنصیردشتی، پیٹر اور ولیم سن سمیت تمام مہمانوں اور دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج کا دن ان شہدا کے نام ہے جنہوں نے سرزمین کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ آج کے دن ہم ان شہدا کو یاد کریں گے جنہوں نے ایک عظیم مقصد اور ایک بہتر مستقبل کے لئے اپنی زندگی کے تمام ترخواہشات کو بالائے طاق رکھ کر قربانی دے چکے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا شہداء نے اپنی ذاتی، خاندانی یا گروہی ضروریات و تقاضوں سے بالاتر ہوکر قومی مقصد اور قومی وجود کو نہ صرف ترجیح دی ہے بلکہ اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ اپنی قومی بقا و قومی وجود کے لئے اپنی زندگی قربان کرنا بذات خود ایک انقلابی فلسفہ ہے۔ ایک عالم انسان میں یہ فکر نشو و نما پاتا ہے، وہ اس نہج پرپہنچ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا بلوچستان کے تزویراتی اہمیت، بلوچستان کے وسائل، بلوچ قوم کے اپنے وطن کے تئیں بے پناہ محبت اس وقت برطانوی سرکار کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ اس کے سبب انہوں نے پاکستان جیسے ریاست کی تشکیل کی اور بلوچ سرزمین کی جغرافیائی و تزویراتی اہمیت و اپنی وطن سے مہر و الفت دنیاکے لئے قابل قبول نہ تھے۔ اس لئے انہوں نے بلوچستان پر پاکستانی قبضے کی حمایت کی، ایسی قومی مزاج کے حامل وطن کے حصے بخرے کیے گئے تاکہ اس کی قوت مجتمع نہ ہو۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا 1839 کو انگریز کے خلاف مزاحمت بلوچ قومی مزاحمتی مزاج اور اپنی سرزمین سے محبت کا اظہار ہے کہ بلوچ نہ صرف اپنی سرزمین پر قبضہ کے خلاف ہے بلکہ بلوچ اس بات کے بھی حق میں نہیں ہے کہ اس کا سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال ہو۔ بلوچ ہمیشہ سے ایسی سوچ (توسیع پسندانہ) کو مسترد کرتا آیا ہے۔ قومی غلامی اور توسیع پسندانہ رویوں کے خلاف بلوچ قوم نے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ یہ قربانیاں اس بات کا اظہار ہیں کہ بلوچ اپنی موت میں قومی و راجی زندگی کا سراغ پاتا ہے۔ جب تک بلوچ پیر و ورنا میں یہ قربانی کا سوچ و فکر برقرار ہے تو یہ سوچ اپنی قوم کو ایک سمت کی جانب لے جاسکتا ہے، اپنی قومی منزل سے قریب ترکردیتا ہے۔ آج ہم اپنی قوم کے ہر طبقے میں اور ہر عمر میں اس سوچ کو وسیع پیمانے پرپاتے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا آج کی دنیا کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک وسیع اتحاد اور سرمایہ نظر آتا ہے۔ توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دہشت گردی کا مرکز و منبع کہاں ہے۔ آج جتنے بھی دہشت گرد تنظیمیں ہیں، ان کی پشت پناہی کون کررہاہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گردت نظیم پاکستانی فوج ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ کیا دنیا اس بات سے ناواقف ہے کہ پاکستان کے ہاتھوں بلوچ کس کرب سے گزر رہاہے۔ خطہ کی صورت حال دیکھیں، افغانستان کو کس نہج پر پہنچایا گیا ہے۔ سندھی، پشتون قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان نہ صرف بلوچ بلکہ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کاوجود ہے اس کے تانے بانے پاکستان سے جاملتے ہیں۔ لہٰذا یہ مہذب دنیاکے سماجوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ تمام عالمی ادارے جو قومی حقوق ومسائل کے حل کے لئے تشکیل پاچکے ہیں،انہیں مجبورکریں،اپنی اپنی ریاستوں پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ پاکستان کے تئیں اپنے پالیسیاں تبدیل کریں اورانسانیت کی فلاح و بقاکے لئے اپنی پالیسیوں کا ازسرنوتشکیل کریں اور پاکستان جیسے دہشت گردریاست کی پشت پناہ سے دست کش ہوجائیں۔
انہوں نے کہا، جس طرح ڈاکٹر نصیر دشتی صاحب نے کہا کہ ایک دو گھنٹے کی نشست اور توصیف سے ہم شہدا کے قربانیوں کا حق ادا نہیں کرپائیں گے کیونکہ وہ ایک انقلابی کی معراج کو پہنچ کراپنی زندگیوں سے گزرچکے ہیں۔ لہٰذا آج کے ان حالات میں بلوچ دانشور، بلوچ سیاسی پارٹی، بلوچ سیاسی قیادت، سیاسی کیڈر کو چاہئے کہ وہ انقلابی اقدامات اٹھانے کے لئے ایک انقلابی ذہنیت کی تشکیل کے لئے کردار ادا کریں تاکہ اکیس ویں کے اس جدید دورمیں پاکستان جیسے دہشت گرد ریاست کے خلاف مقابلہ کرنے کے لئے ایک منظم حکمت عملی کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا میں ڈاکٹرنصیر دشتی سے اتفاق کرتا ہوں کہ بلوچ قوم اوربلوچ قوم سے باہر عالمی برادری سے ایک بہتر مدد و حمایت اور بھروسہ حاصل کے لئے ہمیں اس سے زیادہ بڑی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دانشوروں کی مدد سے سیاسی پارٹیوں،سیاسی قیادت اورسیاسی کیڈرزکے درمیان ایک مربوط رابطہ کاری،کوارڈینیشن اورقرابت داری تشکیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک بہترومنظم حکمت عملی طے کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔نہ صرف بلوچ بلکہ اپنے ہمسائے سندھودیش کے آزادی کے لئے چلنے والے تحریک،پشتون یامشترکہ دشمن کے خلاف ایک مشترکہ فورم کے لئے اقدا م اٹھاسکیں تاکہ بلوچ اور عالمی برادری کی مددحاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں دنیا کو بلوچ کی ضرورت ہے۔ اگر بلوچ ایک مضبوط اتحاد کے ساتھ آگے بڑھتاہے تو دنیا یہ ادراک پر مجبورہوجاتاہے کہ بلوچ اپنی قومی آزادی کے لئے اٹھارویں صدی میں جس جذبے سے لڑرہاتھا وہ جذبہ اورسرزمین سے محبت آج بھی برقرار ہے۔
انہوں نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ اس بارے میں کسی بھی بڑے اقدام کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ ہم نے اس سے قبل سے کوشش کی ہے اور ہماری کوششیں آئندہ بھی جاری رہیں گی کہ بلوچ سیاسی رہنماؤں، دانشوروں، کیڈرز، اپنے ہمسایوں،سندھودیش کے لئے برسرپیکار دوستوں سمیت اپنے فطری اتحادیوں کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم کے تشکیل کے لئے تیار ہیں۔ اس جدوجہد میں ہمیں ڈاکٹر نصیر دشتی، ہدایت بھٹو سمیت تمام ہمراہوں کی مدد و اعانت کی ہمیشہ ضرورت رہے گا۔
ویبنار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ممتازمورخ ڈاکٹر نصیر دشتی نے کہا کہ 13 نومبرکو یوم شہداکے طور پر منانے کا فیصلہ نہایت اہم ہے کیونکہ جدوجہد میں سمبول ازم ضروری ہے۔ 13 نومبر علامت ہے بلوچ تاریخ کے تاریک ترین دنوں کا۔ہم جب اسٹوڈنٹ تھے تو ہم 15جولائی کو یوم شہدا کے طورپر مناتے تھے لیکن وہ محض نواب نوروزوان کے بیٹوں کے واقعے تک محدود تھا لیکن 13نومبرزیادہ وسیع علامت ہے اورہماری غلامی کے سیاہ دنوں کااظہار کرتاہے۔
ڈاکٹر نصیر دشتی نے کہاکہ بلوچ نے وطن،قوم اورآزاد ی کے لئے قربانی دی ہے۔ اورہم زندہ لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کا ادراک کریں کہ لوگوں نے کس مقصدکے لئے قربانی دی ہے اوران لوگوں کے خون کا عوض کس طرح لیں گے یعنی کہ اپنی وطن کو کس طرح آزاد کریں گے۔
انہوں نے بلوچ غلامی کے پس منظر پر بات کرتے کہا کہ انیس ویں صدی میں مشرق ایشیاء میں متعدد ’خانیت‘تھے۔ خانیت سمرقند، خانیتِ بخاراسمیت دیگر خانیت تھے۔ اسی وقت کئی ممالک کے بادشاہوں کا نام خان تھا۔ اسی لئے انہیں خانیت کہاجاتاہے۔ اسی طرح ہماری ایک ریاست تھی۔ ہماری ریاست کا دارلحکومت ’قلات تھا اس لئے ہماری ریاست کو خانیت ِقلات کہاجاتاتھا۔ہماری غلامی میں ہمارے اس وقت کے خان کا ہاتھ تھا اور نہ ہی ہمارے دیگر لوگوں کا، بلکہ یہ غلامی آسمانی بجلی بن کر ہم گری۔ یہ ہمارے خطے یا منطقہ کے واقعات نہ تھے بلکہ اس کا بنیادی وجہ روس اور فرانس کاایک خفیہ معاہدہ تھاجس میں نپولین اور زار روس فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ مشترکہ طورپر ہندوستان پرقبضہ کریں گے۔ اور انگریزوں کی توسیع پسندی اورپیش قدمی کو روکیں گے۔ اس دوران ہندوستان پر قابض نوآبادی طاقت کافیصلہ تھا کہ برطانوی ہندکا سرحددریائے سندھ سے شمال کی جانب نہیں بڑھے گابلکہ برطانوی ہندوستان کی دفاع سندھ سے کریں گے لیکن روسی اوربرطانوی اورروسی شاہی خاندانوں میں رشتہ داری کے سبب روس اور فرانس کے معاہدے کارازفاش ہواکہ نپولین مصراورزارِروس سینٹرل ایشیا سے پیش قدمی کریں توانہوں نے ہندوستان کے دفاعی پالیسی تبدیل کردی اورنئی پالیسی یہ تشکیل پاگیاکہ انگریز دریائے سندھ سے شما ل کی جانب روس کی پیش قدمی روکنے کے لئے سینٹرل ایشیاء جائے گا۔اوراسے ’فارورڈپالیسی‘ کانام دیا گیا یعنی”دریائے سندھ سے آگے پیش قدمی کرنا“۔
ڈاکٹرنصیردشتی نے کہا فارورڈ پالیسی سے ہمارے خطے میں نشیب و فراز اور تبدیلیوں کا آغاز ہوا جو آج بھی جاری ہے۔اسی فارورڈ پالیسی کے نتیجے میں سندھ پر قبضہ ہوتاہے، بلوچستان پر انگریزقبضہ کرتے ہیں اورانگریز دوسری افغان اینگلوجنگ کے بعد جنرل ولشائر نے فوج لے کر قلات پر چڑھائی کرتاہے۔ قلات پر بلوچ قبائل کے اس وقت کے دستورکے مطابق دستے یا لشکر موجود نہ تھے جس کے مختلف وجوہات تھے۔انگریزنے قلات میری کا محاصرہ کرلیا اورخان مہراب خان سے کہاگیاکہ وہ ”ہتھیارپھینک دیں توآپ کی جان بخشی کی جائے گی اور نئے خان کاانتخاب کریں گے“ توخان نے جواب دیاکہ”آپ نئے خان کاانتخاب کرسکتے ہیں لیکن میں سرزمین کا قرضدارہوں اس سرزمین نے مجھے اورمیری آباؤواجدادکو عزت وشرف سے نوازاہے۔ میں آج یہ قرض چکاؤں گا“۔ یہ کہہ کر خان اپنی مختصرلشکرسے چار سوسے سات لشکری تھے انگریزکی جانب بڑھتے ہیں، انگریزی سپاہ کے پاس توپخانہ تھا، خان اورساتھی مارے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں انگریزوں کے معاشی فوائد نہ تھے جس طرح ہندوستان،افریقہ یا دیگر نوآبادی خطوں میں تھے، وہاں انگریز معاشی فوائدسمیٹ رہے تھے لیکن بلوچستان پر انگریزوں نے تزویراتی وجوہات کے بنا پر قبضہ کرتے ہیں تاکہ یہاں سے ان کے افواج کو افغانستان اورایران کی پیش قدمی کرنے میں رکاوٹ کاسامنا نہ ہو۔ چونکہ روس اور فرانس کا خدشہ موجود تھا۔ انگریز بہادر نے یہاں ایسے کارنامہ ہائے انجام دیئے جس توضیع پیش نہیں کی جاسکتی ہے اوراپنے دوسرے نوآبادیوں میں انگریزوں نے ایسے کارنامے انجام نہیں دیئے تھے۔
ڈاکٹرنصیر دشتی نے کہا انگریز بہادر نے بلوچ سماج کو تہہ و بالاکردیا۔ بلوچ سماج قبائل یاگروہوں میں بٹاتھا۔ اس وقت سیاسی پارٹی نہ تھے لیکن خان کے موت کے بعد انہوں نے مزاحمت کیا۔اس وقت سیاسی وسماجی پارٹیوں قبائل،ذیلی قبائل اورقبائلی عمائدین کے شکل میں تھے۔جب قبائل نے مزاحمت کی انگریزوں نے قبائلی سیٹ اپ تبدیل کردیئے۔آج ہم بلوچستان میں جہاں جہاں سرداری نظام کی موجودہ صورت دیکھ رہے ہیں۔ یہ انگریزوں کا دین ہے، یہ اٹھارہ سو تیس کے بعد سنڈیمن کادیاہوا’سوغات‘ہے۔اس سے قبل بلوچ قوم کا سماجی بُنت اس طرح نہیں تھا۔آج سرداری موروثی ہے سردارکے موت کے بعد اس کابیٹاسرداربن جاتاہے۔ پہلے اس طرح نہیں تھابلکہ سرداری کے منصب کے لئے سماج میں لائق و فائق، باعلم اورباتدبیرکاآزادانہ چناؤکیاجاتاتھا۔
ڈاکٹرنصیردشتی نے کہا کہ انگریزوں نے بلوچستان میں دوسراتباہ کن کام یہ کیاکہ بلوچستان کو تقسیم کردیا۔ڈیرہ غازی خان وڈیرہ اسماعیل خان پہلے ہی بلوچستان سے کاٹ کر پنجاب میں شامل کردیئے،پھرایرانی حاکموں کو خوش کرنے یا انہیں روس سے سیاسی،معاشی وسفارتی قربت داری بڑھانے سے روکنے کے لئے مغربی بلوچستان میں مکران اورسیستان کا آدھاحصہ،رخشان کے کچھ علاقے،زاہدان سمیت بہت سے علاقے ایران کوبخش دیئے۔انگریزبہادرنے ہماری سماج تہہ وبالاکردی۔ہماری سرحدات تبدیل کریئے۔
انہوں نے کہاانگریزوں نے تیسراتباہ کن کام یہ کیاکہ جب نوآبادی دورکاخاتمہ کیایاہندوستان سے انخلاکافیصلہ کیاتوانہوں نے اپنے عسکری،اقتصادی مفادات کے لئے انگریزوں کو کلائنٹ ریاست اور مرسنر ی فوج درکارتھاتو وہ برطانوی ہندکافوج تھا جس میں پنجابیوں کا اکثریت تھاتوانہوں اسی فوج کے لئے ایک ریاست کی تشکیل کی۔اس ریاست اورمرسنری فوج کے ذریعے خلیج میں نکلنے والے تیل کو محفوظ کرنااورکمیونسٹ سوویت یونین کے پیش قدمی کو روکناتھاتاکہ سوویت یونین بحیرہ ہندتک نہ پہنچے اورتیسری جانب چین میں خانہ جنگی چل رہاتھااوراندازہ تھا کہ ماؤچین کے قوم پرستوں پرفتح پائے گا،چین کے کمیونسٹ پارٹی کو محدودکرنے اورہندوستان کوایک سپرپاوربننے سے روکنے کے لئے پاکستان کی تشکیل کی گئی اورہماری ریاست پرقبضے کی راہ ہموارکی گئی۔اس میں ہمارے لوگوں کی کمزوری،ہمارے سرداروں،ہمارے سیاسی رہنماؤں کی ناپختگی اورحالات کاادراک نہ کرنابھی شامل تھے۔یہ وہ تمام وجوہات تھے کہ انگریز نے پاکستان سے کہہ دیا کہ بلوچستان پر قبضہ کریں کیونکہ بلوچستان کے بغیرپاکستان ایک”وائبل اسٹیٹ“نہیں سکتاتھا۔
ڈاکٹرنصیردشتی نے کہاپاکستان کی تشکیل اوربلوچستان پر قبضے کا پس منظریہی ہے اب ہماری سیاسی لیڈرشپ کے لئے ضروری ہے کہ اسی پس منظرمیں موجودہ حالات کا جائزہ لیں اورسیاسی پارٹی سمیت بلوچ نیشنل موومنٹ سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیٹھ کر اس بات کا تجزیہ کریں کہ بلوچ کی پہلی غلامی یعنی انگریزوں کا قبضہ،دوسری غلامی یعنی پاکستان کاقبضہ کے وقت کے واقعات وحالات کاآج کے تناظرمیں جائزہ لیں اوراُن حالات کا تجزیہ ہماری جدوجہدکاکس نہج پر رہنمائی کرسکتے ہیں تاکہ ہماری جدوجہدایک نتیجے پرپہنچ سکیں کیونکہ ہمارے لوگوں نے ایک نشست،تعریف و توصیف نہیں بلکہ اپنی سرزمین،اپنی ثقافت اوراپنی روایات کی بقاکے لئے اپنی زندگیاں قربان کرچکے ہیں۔یہ ہم زندہ لوگوں کی ذمہ داری ہے ہم کس طرح کے فیصلے کرتے ہیں،کس راستے کاانتخاب کرتے ہیں،کیسی حکمت عملی بناتے ہیں اورکونسی پالیسی اپناتے ہیں کہ ہم شہداء،سرزمین کاقرض چکاپائیں اوربلوچستان اوربلوچستان سے باہرہمیں قومی تحریک کیلئے مددحاصل کرنا ہے کیونکہ قومی آزادی کے لئے ملک اورملک سے باہر کامددانتہائی ضروری ہوتاہے اورطویل المدتی جدوجہد کے لئے چالیس،پچاس سالہ حکمت عملی لازمی ہوتاہے۔
ویبنار پروگرام میں ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے تمام شرکاء اور ناظرین کو خوش آمدید کہہ کر اپنے خطاب میں کہا 13 نومبر کا دن بلوچ تاریخ میں تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ موت ایک سچائی ہے، جو کوئی پیدا ہوتا ہے اس کے لئے موت لازمی ہے۔ لیکن کون سی موت؟ آج ہم ان لوگوں کو یاد کررہے ہیں جو قومی موت مرے ہیں، شہید ہوگئے ہیں۔ سینکڑوں سالوں کا مشاہدہ ہے کہ بلوچ بے خوف وخطر اپنی جان و مال قربان کرتے آ رہے ہیں۔ میرمہراب خان کے قربانی کی بات کی جائے تومیر مہراب خان کہتاہے ”ممکن ہے کہ دشمن مجھے شکست دے لیکن میں اپنی سرزمین کے لئے اپنی موت کوگلے لگا سکتا ہوں“۔۔ مہراب خان نے تقریباََ ایک سو اسی سال قبل یہ مثال قائم کی۔ بلوچ اپنی زندگیوں کا نذرانہ آج بھی پیش کر رہا ہے۔ بلوچ قوم محراب خان کے فلسفے پر قائم ہے، دوسرے شہداء کے راستے پر گامزن ہے۔ انہی قربانیوں نے نہ صرف ہماری قومی وجود برقرار رکھا ہے بلکہ ہمیں آزادی کی جدوجہدکے لئے توانائی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ 1948 کو خان محراب خان نہ تھا اگروہ (احمدیارخان) محراب خان کی طرح مزاحمت کرتا تو شاید ہماری زندگی اور جدوجہد کی یہ صورت نہ ہوتی۔ اگرخان مزاحمت کرتا تو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے شاید بین الاقوامی برادری مداخلت کرتا یا اقوام متحدہ چونکہ نوتشکیل شدہ تھے کوئی کردار پیش کرتا۔
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا کہ جدوجہد جاری ہے۔ خان محراب خان کے بعدشہدا کی ایک لمبی فہرست ہے۔ نورا مینگل سے لے کر نواب نوروز خان اور آج کے میجر نوراتک، ہزارہا بلوچوں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہے۔ یہاں اکبر خان پاکستانی نظام میں اپنی تجربے سے مایوس ہو کر مزاحمت کی راہ اپناتا ہے اور شہید ہوتا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کے سربراہ واجہ غلام محمد، ڈاکٹر منان شہید کیے جاتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر خالد محاذ پر شہید ہوتا ہے۔ یہاں شیہک جان تیروں کی بوچھاڑ میں، بمبارطیاروں کی گھن گرج میں مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں جدوجہد کا سبق دے کر شہادت کو گلے لگاتا ہے۔ یہاں باسط جان، اعجاز جان اور میراث جان اپنی شب عروس میں شہید ہوتے ہیں۔ یہاں ملک ناز، کلثوم شہیدکیے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو حیات بلوچ کی طرح شہید کیا جاتا ہے۔ یہاں چھوٹی سی یاسمین شہید ہوتاہے، یہاں برمش کو گولیوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج ایسے مثالوں اور شہداکی ایک طویل فہرست ہے۔ پھر لاپتہ افراد کی فہرست ہے۔ اسد مینگل، دلیپ، جانی داس سے لے کر ڈاکٹر دین جان، ذاکر، زاہد، شبیر اور رمضان بلوچ، غفور بلوچ تک، ہزارہا لوگ سالوں سے لاپتہ ہیں۔انہی کی جدوجہدسے بلوچ جدو جہد کا نام دنیا میں گونج رہاہے۔ یہی ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ مرنے سے ہم ختم نہیں ہوتے ہیں۔ جدوجہدمیں موت اور شہادت ہمیں بحیثیت قوم زندہ رکھتا ہے۔اس مرحلے پر ان حالات میں اگر ہم نے جدوجہد میں کمزوری دکھائی، ہم تاریخ میں صفحات میں کھوجائیں گے۔اگر ہم نے کمزوری دکھائی توپاکستان کے ہاتھوں ہماری نسل کشی خاموش نسل کشی میں بدل جائے گی اور دنیا بے خبر رہے گی۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ اتنے شہادتوں اور قربانیوں کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھتی ہیں کہ ہم ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔ خوف، زر، لب و لالچ وآسائشوں سے بالاتر ہوکر جدوجہد کریں اور اپنے طاقت وتوانائی کو قومی آزادی کے لیے وقف کریں۔یہ وقت کا تقاضا ہے۔ سماج کے پڑھے لکھے لوگوں کی حیثیت سے ہمیں یہ بو جھ اپنی کندھوں پراٹھانا ہوگا۔
انہوں نے کہا اگر ہم نے سستی دکھائی تو سید ہاشمی کے اس شعرکو یاد رکھیں: ”شال پیسر سگارءِ ہرجان ات، دیناں بے سیتیں، گنجیں گوادر شت“۔ اگر ہماری پاؤں میں لغزش آئی تو گوادر ہمارے لئے ایک اورکراچی بن جائے گا۔آئیے ایک دوسرے پر بھروسہ کریں، قومی مسئلہ یعنی قومی غلامی کے خلاف جدوجہد کریں۔
معروف انسانی حقوق کے علمبردار اور برطانیہ کے سماجی کارکن پیٹر ٹیچل نے بلوچ شہدا کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں سب سے پہلے ان شہداء کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ یقیناً آپ کے پیاروں کی شہادت آپ کے لئے انتہائی دردمند ہوگی لیکن انکی قربانیاں رائیگاں نہیں گئی وہ بلوچ قوم ہیرو اور ہیروئن ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بلوچ قومی آزادی کیلئے پیش کیا۔ میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں اور وہ لوگ جو آج بھی بلوچ قومی آزادی کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بہادر ہیں اور آپ کی بہادری کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔ آپ بہت سے محاذوں کا ایک ہی وقت میں مقابلہ کررہے ہیں آپ کے سامنے صرف پاکستانی ریاست ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کی عدم توجہی کا بھی مقابلہ ہے، اور بہت سے انسانی حقوق اور لبرل اداروں کی ناکامی کا بھی مقابلہ ہے جو آپ کے کاذ کو سپورٹ نہیں کررہے۔ لیکن پھر بھی آپ مستقل مزاج ہیں، مھکم ہیں اور پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ اپنی آزادی کے حصول سے، اور اسی لیے آپ کا پیغام دنیا تک ضرور پہنچ رہا ہے اور آپ کی سنی جائیگی اور اب زیادہ سے زیادہ لوگ بلوچ قومی آزادی کے حوالے جان رہے ہیں۔ میں سب کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہوسکتا ہے چیزیں سیاہ اور تاریک دکھائی دے رہی ہوں لیکن کوئی بھی ظلم زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، جس کی واضح مثال ہٹلر کی نازی حکومت تھی جس کی ہٹلر صدیوں تک قائم رہنے کا دعوی کرتا تھا لیکن وہ بارہ برس میں ہی ختم ہوگئی۔ بلوچ قوی جنگ یقیناً اس سے بہت زیادہ عرصے طویل ہے، لیکن آخر میں جیت یقیناً آپکی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ میں آپ سے کچھ عملی مسائل پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں اور میں یہ بحیثیت ایک دوست اور ہمدرد کے کہہ رہا ہوں، میں آپ سے یہ باتیں اپنی دہائیوں پر محیط جدوجہد اور تجربات کے بنیاد پر شئیر کررہا ہوں میں آپ کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کو کس طرح کا مستقبل کا انتخاب کرنا ہے وہ آپ خود کرسکتے ہیں لیکن میں آپ کے سامنے چند نقاط رکھنا چاہونگا جو میرے مطالعہ کے مطابق بلوچ قومی تحریک کے ضروریات ہیں۔ سب سے پہلے بلوچ قومی آزادی کے لئے ایک روڈ میپ کا ہونا، جیساکہ ساؤتھ افریقہ میں افریقن نیشنل کانگریس کا فریڈم چارٹر تھا۔ جب وہ اپارتھائیڈ (رنگ امتیاز) کیخلاف لڑرہے تھے۔ ان کے پاس فریڈیم چارٹر موجود تھا جس میں انکے مقاصد لکھے ہوئے تھے اور انکے پاس ایک پلان موجود تھا کہ کیسے ان مقاصد کو حاصل کرینگے۔
انہونے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو عالمی پلیٹ فارمز، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں آپ کو سنجیدگی سے سنا جائے اور بات کی جائے تو یقیناً آپکو آزادی کے لئے ایک روڈ میپ اور طے شدہ مقصد اور اصولوں کی ضرورت ہے جو آپکی رہنمائی کرسکیں۔ حکومتیں اور عالمی ادارے جاننا چائینگے کے آپ کیا چاہتے ہیں؟ اور آپ کیسے اُن مقاصد کو حاصل کرینگے؟
جیسا کہ آپ میں سے اکثر جانتے ہیں کہ میں پہلے بھی ایک چھ نقاطی روڈ میپ کا خاکہ پیش کرچکا ہوں جو اس سے پہلے نقطے کے ساتھ شروع ہوتا ہے کہ
1. اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جنگ بندی کے لئے کوشش، تمام فریقوں کی جانب سے فوجی کاروائیوں کا اختتام، پاکستانی فوج کا اپنے بیرکس میں واپسی اور بلوچ مزاحمت کاروں کا گوریلا کیمپوں میں واپسی۔
2. تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور لاپتہ کئے گئے افراد کے بابت مکمل جانکاری۔
3. میڈیا، انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی امدادی ایجنسیوں کو بلوچستان بھر میں مکمل اور آزاد رسائی۔
4. ہجرت کرنے والے لوگوں کی واپسی، ان کے ملکیت کی بحالی، اور پاکستانی ریاست کی جانب سے انکی معاونت کرنا جن کے ملکیت کو پاکستانی فورسز نے دوران تنازعہ نقصانات پہنچائے ہیں۔
5. غیر بلوچ آبادکاروں سے بلوچستان کی اندرونی نوابادکاری کا خاتمہ،
6. اقوام متحدہ کی سرپرستی میں بلوچستان میں حق خوداردیت کے لئے ریفرنڈم، جو بلوچ عوام کو آزادی کے اختیار کا پیش کش دے گی۔
میں سمجھتا ہوں ان لکیروں کے درمیان ہی ایک پروگرام ترتیب دیکر بلوچ جماعتوں کو تمام یا جتنے مشترک ہوسکیں انہیں کوشش کرنا ہوگا کہ اس پروگرام کو آگے بڑھائیں کیونکہ یکجہتی میں طاقت ہے۔ آپ کو افریقن نیشنل کانگریس کو دیکھنا چاہیے انہونے تنہا جدوجہد نہیں کی بلکہ ان تمام گروپس کو یکجاہ کیا جو اپارتھائیڈ کے خلاف تھے، ان میں سیاسی، مذہبی، طلبہ تنظیموں اور دیگر کو شامل کیا۔ اس طرح وہ کامیاب ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کو ایک طرف رکھ کر عظیم تر کاز کی خاطر مشترکہ جدوجہد کی۔
پیٹر ٹیچل نے مزید کہا کہ ایک اور بات جو دنیا کی حکومتیں آپ سے جاننا چائینگے وہ یہ کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟
اس حوالے سے ہم نے دوہزار دس کو کچھ بلوچ سیاسی کارکنان کے ساتھ اقوام متحدہ میں ایک چارٹر پیش کیا تھا جو انتہائی آسان سے چھ نقاط پر مبنی ہے۔
1. سوشل جسٹس، برابری اور انسانی حقوق تمام بلوچوں کے لئے۔
2. لینڈ ریفارم – تمام بالغ بلوچوں کو زمین میں حصہ داری۔
3. تمام بلوچ عوام میں ملکیت اور طاقت کی دوبارہ تقسیم۔
4. ایک سیکولر ریاست، جہاں تمام عقائد، مزائب اور غیر مزہبی لوگوں کے برابر قانونی حقوق اور کسی بھی مذہب کو دوسرے مذاہب پر قانونی، سرکاری اور عوامی اداروں میں برتری حاصل نہ ہو۔
5. جمہوری اور زاتی آزادی، بشمول آزاد مختلف جماعتی الیکشنز، احتجاج کی آزادی اور آزادی اظہار و صحافت، جیساکہ اقوام متحدہ کے یونیورسل ڈیکلیرشن میں لکھا ہے۔
6. اقوام متحدہ کے کمیشن کی ایک انکوائری لاپتہ افراد، اور بغیر کسی ٹرائیل کے قید کا شکار بنائے گئے لوگوں، ٹارچر اور ماورائے عدالت قتل، بشمول بلوچ رہنماوں اور عام بلوچوں کو جبر کا نشانہ بنانے کے۔
انہونے نے کہا کہ ان نقاط کے زریعے آپ دنیا کو یہ باور کراسکتے ہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور آپ کے جدوجہد کا مقصد کیا ہے۔ پیٹر ٹیچل نے کہا کہ بلوچ جدوجہد میں خواتین کی کمی کو ہرگز درگزر نہیں کیا جاسکتا یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ بلوچ خواتین تحریک میں ایک بہتر کردار نبھا رہی ہیں لیکن بلوچ تحریک کی رہنمائی کرنے والے اکثر مرد حضرات ہیں اور یہ ایک بہت ہی بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آپ کی آبادی کا نصف حصہ آپ کے جدوجہد کا حصہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ خواتین کو اپنی تحریک کا زیادہ سے زیادہ حصہ بنائیں جس سے یقیناً آپ کی کامیابی اور بھی قریب تر ہوگی۔
نیشن ود آوٹ اسٹیٹس کے سربراہ اور سابق لوکل کاؤنسلر مسٹر گراھم ولیم سن نے اپنے خطاب میں شہدائے بلوچستان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں آج کے دن کی مناسبت سے اپنے بلوچ دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں یقیناً مغربی ممالک کو جس طرح سے آپ کی مدد کرنی چاہیے وہ ابھی تک نظر نہیں آتی ابھی تک کسی بھی سیاست دان کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔
انہوں نے کہا آپ کو چاہیے بلوچ ڈائسپورہ کو چاہیے آپ جس بھی ممالک میں موجود ہیں وہاں کے عوام تک رسائی حاصل کریں، عام لوگوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے جہاں انسانی حقوق کی سنگین پائمالیاں جاری ہیں۔ اور بلوچ قوم پاکستان کا حصہ نہیں کیونکہ بدقسمتی اب تک لوگ بلوچوں کو بلوچ کے حیثیت سے نہیں پاکستانی کی حیثیت سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
گراہم ولیمسن نے مزید کہا کہ اگر آپ اپنی بات عام عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہونگے تو یقیناً آپ کو زیادہ ہمدرد اور بہتر عوامی و سیاسی کمک حاصل ہونے کے امکانات زیادہ ہونگے۔
ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر ہدایت بھٹو نے شہدائے بلوچستان کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں بلوچ شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے آنے والی نسلوں کیلیے قربان کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زندہ قومیں اپنے شہداء کو ہمیشہ یاد کرتی ہیں اور ان کی قربانیاں جاری جدوجہد میں مظلوم اقوام کے لئے روشن مشعل کا کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھی قوم بلوچ کے درد اور انکے شہدا کے قربانیوں نہ صرف سمجھ اور محسوس کرسکتی ہے بلکہ بلوچ شہدا اور سندھی شہدا میں کوئی فرق نہیں سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں بلوچ اور سندھی آج جس سخت ترین اور مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں اس سختی اور مشکل حالات میں جہاں بلوچ اور سندھی اقوام کے خواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کو لاپتہ اور شہید کیا جارہا ہے اور ہمارے سرزمین کو مزید غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا جارہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں اور ہمارے دشمن کے اپنی غلطیوں اور ہمارے بہتر پالیسیز کی بدولت آج دشمن کافی مشکلات سے دوچار ہے لیکن ابھی بھی ہمیں اپنے اندر بہتری لانے اور اپنے تاریخی بھائی چارگی اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اغیار کی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یقیناً بلوچ اور سندھی تاریخی برادر اقوام کے درمیان بھی ریاستی پالیسی کے تحت دوریاں اور نفرتیں پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں جنہیں بلوچ اور سندھی اقوام نے ناصرف ناکام کردیا بلکہ اب ہمارے درمیان بہتر اور مھکم یکجہتی موجود ہے۔
ویبنار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے رکن اور بی ایس او کے سابقہ چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے کہااگر بلوچ کی قدیم اورجدید تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری سرحدیں محفوظ نہیں رہی ہیں۔اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ بلوچستان ہمیشہ قابضین کی مزموم خواہشات کی بھینٹ چڑھتاآیاہے لیکن بلوچ قوم نے اپنی بساط کے مطابق ان کا مقابلہ کیاہے اور کوشش کی ہے کہ اپنی سرزمین کو غیروں سے محفوظ رکھیں۔آج پاکستان کے قبضے کو ستر سے زائد گزر چکے ہیں۔ان ستر سالوں کی غلامی میں بلوچ اپنی سرزمین پرآرام وسکون کی زندگی نہیں گزاری ہے اورہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستانی غلامی کے خلاف جدوجہد کریں،اس جدوجہدمیں خواتین وحضرات،بچوں،جوانوں اوربزرگوں کی طویل فہرست ہے جو قتل کئے گئے ہیں،اس حقیقت سے آشناہونے کے باوجود کہ زندگی ایک بارہی ملتی ہے انہوں نے سروں کی قربانی دی ہے۔
بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ جب ریاست کی سرحدو مرکز ٹوٹ جاتے ہیں تو اپنی رسم ورواج،زبان اورقومی وحدت کو برقرار رکھنا مشکل بن جاتاہے۔ بلوچ عشروں سے جدوجہد کررہاہے کہ اپنی سرحدات ومرکز،اپنی بنیاد کی حفاظت کرے،بلوچ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ کسی بھی قوم کے لیے سرزمین کتنی اہمیت رکھتاہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف اپنی جدوجہد کی تاریخ کامطالعہ کریں اورسوچیں کہ کیونکر ہمارے لوگوں نے اپنی زندگیوں کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ تو وہ مقصد، قومی آزادی ہے کہ بلوچ کوبحیثیت رنگ ونسل، صنف، زبان و لہجہ سمیت تمام تفریق و تعصبات سے بالاتر تمام حقوق کی آزادی میسر ہو۔ ایسی آزادی کے لئے ہمیں اپنے معاشرے میں بھی بڑی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ کی جنگ ایک سیاسی مرحلے سے گزررہاہے،یہاں یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہمیں آزادی دس سال یا سوسال بعد ملتاہے لیکن اپنے سماج کی تربیت اورقومی قوت کو مجتمع کرنا بذات خود بڑی عمل ہے۔ اگر پاکستان آج یہ کہتاہے کہ بلوچ بحیثیت انسان اس سے کمترہے اور وہ (بلوچ) ایک قومی ریاست کی تشکیل اور چلانے کی اہلیت نہیں رکھتاہے اور مجھے(پاکستان کو)کو یہ حق حاصل ہے کہ بلوچ پر حکمرانی کرے لیکن ہماری سیاسی نظم پاکستانی سیاست سے متاثر ہوتاہے تو ہم بحیثیت انسان یا قوم ایک آزادوباوقارعظمت کا مالک نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی سماج کی ازسرنوتشکیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستانی سیاسی کلچر کے خلا ف جنگ کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنی قوم کو باورکرانے کی ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت رہنما آپ کی ہمراہ داری میں سیاسی کلچر کو فروغ دے سکتے ہیں جہاں ہر انسان اپنی بات کہنے میں آزاد ہو۔ہم پاکستان کے تشکیل کردہ ذہنیت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنی جدوجہد کا آدھامرحلہ طے کرچکے ہیں۔