13 نومبر بلوچ شہدا کی یاد میں
تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ عوام پچھلے کچھ سالوں سے 13 نومبر کو ‘ یوم شہادت’ کے طور پر منا رہے ہیں۔ اس دن کی اہمیت 13 نومبر 1839 کی ہے ، جب برطانوی افواج نے بلوچستان پر حملہ کیا اور بلوچ حکمران میر محراب خان بلوچ اور اس کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔
تب سے لے کر آج تک بلوچ سرزمین کی شہدا کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔میری قلم کی سیاہی شائد ختم ہو جائے گی، لیکن ان شہدا کے نام ختم نہیں ہوں گے۔جنہوں نے اپنی قمیتی جانوں کا نذرانہ دی ہے اور اب بھی بلوچ فرزند اپنی سرزمین کے لیے اس ظلم قابض ریاست پاکستان کے خلاف جد وجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔
بلوچستان کے تاریخ سے بخوبی آشنا لوگ جانتے ہیں کہ بلوچ سرزمین کے فرزندوں کی اپنی سر زمین کی دفاع اور اس غیر قوموں کی قبضے کےخلاف یہ جنگ کوئی نومولود جنگ نہیں ہے۔اسکا ایک پس منظر ہے۔اس پس منظر کو اس آرٹیکل میں بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔
واصف علی واصف صاحب کا قول ہے کہ”جو کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں،جو بغیر مقصد کے جیتے ہیں وہ جیتے نہیں.” ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بلوچ قوم کی جینے کا مقصد بلوچستان پر سے قبضہ گیریت کو ختم کرنا ہے۔ اور اپنے وطن کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دینے کا مقصد بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت دلانا ہے۔
میر محراب خان سے لے کر آج تک جتنے بھی بلوچ فرزند اس مٹی کے لیے شہید ہوۓ ہیں۔انکا عزم اور چاہت صرف اور صرف بلوچستان کی آزادی ہے۔ایسے جانثاروں کے ہوتے ہوۓ وہ دن دور نہیں جب بلوچستان انشاء اللہ ایک آزاد ملک کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پر ہو گا!
آج بلوچ قوم غلامی کی جس چکی میں پس رہی ہے، اور جو ظلم و جبر ان پر قابض ریاست پاکستان کر رہا وہ تاریخ کے صفحوں میں سیاہ حروف کی شکل میں قلمبند ہو چکے ہیں۔
حیات بلوچ جو کراچی کے ایک یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔اسے جس بے دردی کے ساتھ اس کے مظلوم اور مجبور والدین کے سامنے بغیر کسی جرم اور گناہ کے شہید کیا گیا۔ اس ظلم کو دیکھ کر مشہور زمانہ گوریلا کمانڈر ارنیسٹو گویرالاسیرنا جسے دنیا میں ایک انقلابی جنگجو کے طور پر چی گویرا کے نام سے پہچاناجاتا ہے۔کہ یہ الفاظ یاد آۓ ” دیہاتی آبادی میں مقتولوں کی کٹیا میدان جنگ بنے گی۔دشمن کی بمباری سے تباہ شدہ شہر اور دیہات میدان جنگ ہوں گے۔”
بلوچستان کا ہر دیہات اور شہر میدان جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔حیات بلوچ کو اسکے والدین کے سامنے جسطرح شہید کیا گیا ایسے ہی یہ ظلم ریاست ہمارے سینکڑوں بلوچوں کو عقوبت خانوں میں شہید کرکےانکی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں درگور کرتا ہے۔ وہ کوئی مردہ قوم ہی ہوگی جو ایسے مظالم اور جبر کے خلاف مزاحمت نہ کرکے غلامی کی زندگی کو اپناۓ گا، بلوچ قوم کی جو آزادی کی تحریک ہے قابض ریاست پاکستان کے ایسے ہی ظالمانہ رویوں کا شاخسانہ ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمدمری صاحب کی تحریر سےاقتباس کچھ الفاظ یہاں درج کرنا چاہوں گی۔جو کے میرے موضوع سے مطابقت رکھتے ہے۔
زنجیریں خواہ کتنی بھی گلی سڑی ہوں، کبھی بھی خود نہیں ٹوٹتیں،استحصالی نظاموں کی سکرات صدیوں تک طویل ہوتی ہے۔ظلم اپنی موت آپ نہیں مرتا، اسے مارنا پڑتا ہے۔انسان کو فعال طور پر فیصلہ کن اقدام کرکے زندگی کو بسر کرنے کے قابل بنانا ہوگا، جب آگ لگتی ہےتواس بجھانے میں لگ جانا چاہیے۔موت سامنے ہو تو اصلاحات نہیں زندگی بچانے کا انقلاب کرنا پڑتا ہے۔
قابض ریاستیں چاہے وہ پرتگال ہو یا چاہے وہ انگریز یا پاکستان، بلوچستان کے بہادر فرزند روز اول سے اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے برسرپیکار ہیں، اور آزادی کی وہ جنگ ابھی بھی جاری ہے۔اور غلامی کی گلی سڑی زنجیروں کو توڑنے کی اس میں شدت آچکی ہے، بہادر بلوچ فرزند انقلاب کی راہ پر گامزن ہیں۔
جہاں بھی ظلم موجود ہے وہیں چی گویرا کی روح ، اسکا پیغام موجود ہے، اسکے قول و فعل آزادی کےپیروکاروں کےلیے اندھیروں میں مشعل راہ ہے وہ کہتا ہے کہ ” موت جہاں بھی ہمیں آ لے ہم مسکر کر اسکا استقبال کریں گے بشرطیکہ ہمارا نعرہ جنگ کس گوش دل میں اتر چکا ہو۔دوسرے ہاتھ ہمارے ہتھیار اٹھانے کے لیے مشتاقانہ آگے بڑھیں۔ماتمی ترانوں کی بجاۓ توپوں کی گھن گرج میں ہمارا جنازہ اٹھے۔جنگ اور جیت نئی رجز سے فضاؤں کے دل دہلیں۔”
چی گویرا کے یہ الفاظ بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک سے کتنی مماثلت رکھتے ہیں۔ جب آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والے میر محراب خان کے ہاتھ سے ہتھیار گرا تو اسے حمل نے اٹھایا اسکے بعد بابو نوروز خان اور اسکے فرزندوں نے آزادی کے لیے ہتھیار اٹھائے۔آزادی کی جنگ کے کارواں میں باباۓ بلوچ قوم نواب خیربخش مری کے فرزند بالاچ مری اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت نے نئی جدت اور شدت پیدا کر دی ہے ۔اب آزادی کی یہ جنگ بلوچ قوم کے ہر کوچے اور گھر تک پہنچ چکا ہیں۔آج بلوچ قوم کے ہر گھر میں بلوچستان کی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والا ایک شہید ضررو ہے۔ہم بلوچستان کے لیے استاد اسلم بلوچ اور انکے جوان سال بیٹے ریحان جان کی قربانی کسے فرموش کر سکتے ہیں۔
! ان ہزاروں شہید بلوچ فرزندوں کا نام اس آرٹیکل میں لکھنا ایسے ہی ناممکن ہے،جسے دریا کو کوزے میں بند کرنا ناممکن ہے۔
چی گویرا کے ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی اس آرٹیکل کا اختتام کروں گی “انقلابی جنگیں_ بازاروں میں آنسو گیس کے مقابلے میں سنگریزوں کے پتھراؤ سے نہیں لڑی جائیں گی ، نہ پرامن ہڑتالوں سے۔ جنگ طویل ہوگی_ ہولناک ہوگی۔ میدان جنگ گوریلوں کی قلعہ بندیاں ہوں گی۔شہر ہوں گے۔ نبرد آزماوں کے گھر ہوں گے۔ جہاں ظالموں کے ہاتھ مجاہدوں کے خاندانوں کو کو آسان شگارگاہ سمجھ کر وراز ہوں گے”
اب بھٹیاں دہکنے کا وقت ہے
اب صرف روشنی نظر آنی چاہیے.”
اور پھر فتح۔آخری فتح
کا اظہار ہیں
13 نومبر بلوچ شہدا کی یاد میں
تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ عوام پچھلے کچھ سالوں سے 13 نومبر کو ‘ یوم شہادت’ کے طور پر منا رہے ہیں۔ اس دن کی اہمیت 13 نومبر 1839 کی ہے ، جب برطانوی افواج نے بلوچستان پر حملہ کیا اور بلوچ حکمران میر محراب خان بلوچ اور اس کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔
تب سے لے کر آج تک بلوچ سرزمین کی شہدا کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔میری قلم کی سیاہی شائد ختم ہو جائے گی، لیکن ان شہدا کے نام ختم نہیں ہوں گے۔جنہوں نے اپنی قمیتی جانوں کا نذرانہ دی ہے اور اب بھی بلوچ فرزند اپنی سرزمین کے لیے اس ظلم قابض ریاست پاکستان کے خلاف جد وجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔
بلوچستان کے تاریخ سے بخوبی آشنا لوگ جانتے ہیں کہ بلوچ سرزمین کے فرزندوں کی اپنی سر زمین کی دفاع اور اس غیر قوموں کی قبضے کےخلاف یہ جنگ کوئی نومولود جنگ نہیں ہے۔اسکا ایک پس منظر ہے۔اس پس منظر کو اس آرٹیکل میں بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔
واصف علی واصف صاحب کا قول ہے کہ”جو کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں،جو بغیر مقصد کے جیتے ہیں وہ جیتے نہیں.” ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بلوچ قوم کی جینے کا مقصد بلوچستان پر سے قبضہ گیریت کو ختم کرنا ہے۔ اور اپنے وطن کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دینے کا مقصد بلوچستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت دلانا ہے۔
میر محراب خان سے لے کر آج تک جتنے بھی بلوچ فرزند اس مٹی کے لیے شہید ہوۓ ہیں۔انکا عزم اور چاہت صرف اور صرف بلوچستان کی آزادی ہے۔ایسے جانثاروں کے ہوتے ہوۓ وہ دن دور نہیں جب بلوچستان انشاء اللہ ایک آزاد ملک کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پر ہو گا!
آج بلوچ قوم غلامی کی جس چکی میں پس رہی ہے، اور جو ظلم و جبر ان پر قابض ریاست پاکستان کر رہا وہ تاریخ کے صفحوں میں سیاہ حروف کی شکل میں قلمبند ہو چکے ہیں۔
حیات بلوچ جو کراچی کے ایک یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔اسے جس بے دردی کے ساتھ اس کے مظلوم اور مجبور والدین کے سامنے بغیر کسی جرم اور گناہ کے شہید کیا گیا۔ اس ظلم کو دیکھ کر مشہور زمانہ گوریلا کمانڈر ارنیسٹو گویرالاسیرنا جسے دنیا میں ایک انقلابی جنگجو کے طور پر چی گویرا کے نام سے پہچاناجاتا ہے۔کہ یہ الفاظ یاد آۓ ” دیہاتی آبادی میں مقتولوں کی کٹیا میدان جنگ بنے گی۔دشمن کی بمباری سے تباہ شدہ شہر اور دیہات میدان جنگ ہوں گے۔”
بلوچستان کا ہر دیہات اور شہر میدان جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔حیات بلوچ کو اسکے والدین کے سامنے جسطرح شہید کیا گیا ایسے ہی یہ ظلم ریاست ہمارے سینکڑوں بلوچوں کو عقوبت خانوں میں شہید کرکےانکی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں درگور کرتا ہے۔ وہ کوئی مردہ قوم ہی ہوگی جو ایسے مظالم اور جبر کے خلاف مزاحمت نہ کرکے غلامی کی زندگی کو اپناۓ گا، بلوچ قوم کی جو آزادی کی تحریک ہے قابض ریاست پاکستان کے ایسے ہی ظالمانہ رویوں کا شاخسانہ ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمدمری صاحب کی تحریر سےاقتباس کچھ الفاظ یہاں درج کرنا چاہوں گی۔جو کے میرے موضوع سے مطابقت رکھتے ہے۔
زنجیریں خواہ کتنی بھی گلی سڑی ہوں، کبھی بھی خود نہیں ٹوٹتیں،استحصالی نظاموں کی سکرات صدیوں تک طویل ہوتی ہے۔ظلم اپنی موت آپ نہیں مرتا، اسے مارنا پڑتا ہے۔انسان کو فعال طور پر فیصلہ کن اقدام کرکے زندگی کو بسر کرنے کے قابل بنانا ہوگا، جب آگ لگتی ہےتواس بجھانے میں لگ جانا چاہیے۔موت سامنے ہو تو اصلاحات نہیں زندگی بچانے کا انقلاب کرنا پڑتا ہے۔
قابض ریاستیں چاہے وہ پرتگال ہو یا چاہے وہ انگریز یا پاکستان، بلوچستان کے بہادر فرزند روز اول سے اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے برسرپیکار ہیں، اور آزادی کی وہ جنگ ابھی بھی جاری ہے۔اور غلامی کی گلی سڑی زنجیروں کو توڑنے کی اس میں شدت آچکی ہے، بہادر بلوچ فرزند انقلاب کی راہ پر گامزن ہیں۔
جہاں بھی ظلم موجود ہے وہیں چی گویرا کی روح ، اسکا پیغام موجود ہے، اسکے قول و فعل آزادی کےپیروکاروں کےلیے اندھیروں میں مشعل راہ ہے وہ کہتا ہے کہ ” موت جہاں بھی ہمیں آ لے ہم مسکر کر اسکا استقبال کریں گے بشرطیکہ ہمارا نعرہ جنگ کس گوش دل میں اتر چکا ہو۔دوسرے ہاتھ ہمارے ہتھیار اٹھانے کے لیے مشتاقانہ آگے بڑھیں۔ماتمی ترانوں کی بجاۓ توپوں کی گھن گرج میں ہمارا جنازہ اٹھے۔جنگ اور جیت نئی رجز سے فضاؤں کے دل دہلیں۔”
چی گویرا کے یہ الفاظ بلوچ قوم کی آزادی کی تحریک سے کتنی مماثلت رکھتے ہیں۔ جب آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والے میر محراب خان کے ہاتھ سے ہتھیار گرا تو اسے حمل نے اٹھایا اسکے بعد بابو نوروز خان اور اسکے فرزندوں نے آزادی کے لیے ہتھیار اٹھائے۔آزادی کی جنگ کے کارواں میں باباۓ بلوچ قوم نواب خیربخش مری کے فرزند بالاچ مری اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت نے نئی جدت اور شدت پیدا کر دی ہے ۔اب آزادی کی یہ جنگ بلوچ قوم کے ہر کوچے اور گھر تک پہنچ چکا ہیں۔آج بلوچ قوم کے ہر گھر میں بلوچستان کی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والا ایک شہید ضررو ہے۔ہم بلوچستان کے لیے استاد اسلم بلوچ اور انکے جوان سال بیٹے ریحان جان کی قربانی کسے فرموش کر سکتے ہیں۔
! ان ہزاروں شہید بلوچ فرزندوں کا نام اس آرٹیکل میں لکھنا ایسے ہی ناممکن ہے،جسے دریا کو کوزے میں بند کرنا ناممکن ہے۔
چی گویرا کے ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی اس آرٹیکل کا اختتام کروں گی “انقلابی جنگیں_ بازاروں میں آنسو گیس کے مقابلے میں سنگریزوں کے پتھراؤ سے نہیں لڑی جائیں گی ، نہ پرامن ہڑتالوں سے۔ جنگ طویل ہوگی_ ہولناک ہوگی۔ میدان جنگ گوریلوں کی قلعہ بندیاں ہوں گی۔شہر ہوں گے۔ نبرد آزماوں کے گھر ہوں گے۔ جہاں ظالموں کے ہاتھ مجاہدوں کے خاندانوں کو کو آسان شگارگاہ سمجھ کر وراز ہوں گے”
اب بھٹیاں دہکنے کا وقت ہے
اب صرف روشنی نظر آنی چاہیے.”
اور پھر فتح۔آخری فتح
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں