بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے تریپن ویں یوم تاسیس کے موقع پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تقریباََ نصف صدی قبل قیام عمل میں لائی جانے والی بی ایس او ظلم وجبر اور مخلتف نشیب و فراز سے گزر کر آج بھی ایک سرخ سمندر کی طرح بلوچ نوجوانوں کی ترجمانی کر رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بی ایس او کے قیام کا واحد محرک قبائلی، لسانی اور علاقائی گروہوں میں بٹے بلوچ طالبعلموں کو یکجا کر کے قومی شعور سے لیس سیاسی عمل کا حصہ بنانا تھا۔ بی ایس او نے اپنے قیام کے ساتھ ہی بلوچستان بھر میں عملی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرکے قومی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور جلد ہی خطے کی مضبوط ترین سیاسی طلبا تنظیم بن کر سامنے آئی۔
بلوچ نوجوانوں کو فکری اور شعوری حوالے سے مضبوط بنانے کے لیے مختلف سیاسی اور ادبی دیوانوں کا انعقاد کیا۔ جبکہ بلوچ عوام تک تنظیمی موقف کو پہنچانے کے لیے رسالہ و جرائد کا اجراء کیا اور مختلف موضوعات پر پمفلٹ شائع کرکے بلوچ سرزمین پر ریاستی دہشتگردی کو اجاگر کیا۔
تنظیم اپنے عمل کی بدولت جلد ہی بلوچ عوام میں مقبولیت حاصل کرگئی اور عوامی پذیرائی کے سبب مقتدر قوتوں کے لئے درد سر بن گئی۔ اس لئے مقتدرہ قوتوں نے تنظیم کے سیاسی عمل کو جمود کا شکار بنانے کے لئے مختلف سازشی حربوں کا سہارا لیا۔ تقسیم در تقسیم کے عمل سے لیکر سرچ اینڈ ڈسٹرائے پالیسی کے تحت بلوچ سماج کو سیاسی بانجھ بنانے کی ہر ممکن جدوجہد کی گئی لیکن تنظیم کی لیڈر شپ اور کارکنان کے بلند عزم و حوصلوں میں مضبوطی نے تنظیم کو ہر آزمائش سے نکال باہر کیا۔
ترجمان نے کہا کہ گذشتہ دو دہائیوں سے بی ایس او نے حقیقی قومی جدوجہد کا راستہ اپنا کر بلوچ نوجوانوں کو قومی حقوق کے حصول کے لیے ایک واضح سمت مہیا کی ہے۔ بلوچ نوجوانوں نے بی ایس او کے بینر تلے خود کو یکجا کیا اور نظریاتی حوالے سے پختہ سیاسی کارکنان کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا کرجدوجہد کو جلا بخشی ہے۔ بی ایس اوکے نئے نظریے، بلوچ قومی تحریک میں اہم کردار اور عوام میں پذیرائی کے سبب تنظیم روز اول سے ریاستی عتاب کا شکار رہی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں تنظیمی کارکنان اور رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، درجنوں کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں جبکہ کئی رہنما برسوں گزرنے کے باوجود تاحال اسیر ہیں۔ نوجوانوں میں خوف وہراس پھیلانے اور تنظیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ظلم و جبر کیساتھ تنظیم پر پابندی عائد کرنے سمیت مختلف سازشی حربوں کو بروئے کار لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ برسوں سے جاری ریاستی جبر کے باجود بی ایس او آج بھی بلوچ نوجوانوں کا حقیقی نمائندہ تنظیم ہے اور تنظیم آج بھی واضح موقف کیساتھ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ یوم تاسیس کے حوالے سے چھبیس نومبر کو تمام زونوں میں ریفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا اور بی ایس او پر لگی پابندی کیخلاف سوشل میڈیا پر ایک آگاہی مہم چلائی جائے گی۔