ہمارا درد ایک جیسا – سمائشہ بلوچ

458

ہمارا درد ایک جیسا

تحریر: سمائشہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سندھ سباء کی طرف سے رواں مارچ کراچی ٹو جی ایچ کیو راولپنڈی تمام لاپتہ سندھیوں اور بلوچوں کیلئے جاری ہے، یہ قافلہ رواں ہے لیکن مجال ہے کوئی انکی طرف دیکھے۔

بوڑھی ماوں کے پیروں پہ چھالے پڑ گئے ہیں لیکن اپنے بیٹوں کی بازیابی کیلئے امید لیے چلتی جارہی ہیں، اسی طرح دیگر بہنیں کسی کا شوہر، کسی کا منگیتر، کسی کا بھائی لاپتہ ہے، کوئی کچھ مہینوں سے غائب ہے، توکوئی کچھ سالوں سے لیکن یہ پرعزم بیٹیاں اور بھائی پُر امید ہیں کہ انکی کوئی خبر آئے اور وہ خبر ان کی بازیابی کی خوشخبری ہو، لیکن ایک گھر کا سربراہ نہیں مل رہا اور ان کیلے چیختی، روتی سسکتی ماؤں کو بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں، افسوس کے اب کوئی نہیں ایسا جس میں ذرا برابر احساس اور غیرت ہو۔

لے تو جاتے ہو، بول بھی دو کی انکا قصور و گناہ کیا ہے؟ کیا 73 کی آئین صرف شوپیس کی صورت میں کباٹوں کا زینت ہے؟ جو انصاف مانگیں گے اسے لاپتہ کردوگے کب تک؟

کیا ایسا کرنے سے آوازیں دبیں گی؟ جان لیں ظلم تو ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، کیا جو تمہارے زندانوں میں قید ہیں، اسکے بعد تمہیں آج تک لگا کہ یہ قوم اتنی کمزور ہے کہ تم صدیوں سے لاپتہ تو کیے جارہے ہو اور یہ تحریک سہم گئی ہو یا دب گئی ہو؟ اور ویسے بھی ہر روز ایک نئی آواز سامنے آرہی ہے اور آتی رہیگی کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ یہ ریاست جمہوری صدا سے ڈرتی ہے، تم اپنا سلسلہ جاری رکھو کہ تم ڈرتے ہو لیکن ہمارے حوصلے بلند ہیں، ہم بڑھتے جائیں گے، بولتےجائیں گے، ڈر تو دور ہم حیران ہیں کہ تم کم ظرف کا زور لاپتہ یا قتل یا ریپ تک محدود ہو چکا ہے جو شکست کا چہرہ ہے۔

سلام سندھ سباء کے کارواں کے مارچ والوں پر جو اللہ کا نام لیکر نکلیں ہیں اور امید لگائے ہیں اس مدینے کی ریاست کے حکمران سے کہ شاید ایک راستہ نکال دیں، یہ دعویدارِ خدائی، ایسے لانگ مارچ ہر مجبور کو کرنا پڑ جاتا ہے اور اس پہ لوگوں کے تبصرے یہی کہ یہ انڈیا میں ٹریننگ لینے گئے ہیں، یہاں افغانستان میں اگر ایسا ہے تو دیں پتہ ان اجڑے بھٹکے خاندانوں کو جو سڑکوں پہ دھرنا دے رہی ہیں، یہ عورتیں عزت ہیں گھر کی لیکن آج سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کی بھیک ہر کسی کے در جا کر مانگ رہی ہیں اور کچھ بے خوف انسان الزام لگاتے ہیں کہ یہ دلال قوم ہے، اگر بلوچ، سندھی، پشتون دلال ہیں تو آپ ایسے الفاظ استعمال کرنے والے اور آپکے پاس یہ نازیبا الفاظ جسکا چناؤ کرتے ہیں اور تہمت لگاتے آپکے ہاتھ تو دور ضمیر بھی نہیں کانپتی ہوگی؟ آپ پھر کون سی غیرت کے ترازو میں تولتے ہو خود کو؟ خود کو مسلمان کہتے ہو آپ تو جس طرح سے کسی کے گھر کا فرد لاپتہ ہے اور وہ خاندان فریاد کررہا ہے، دہائیاں دے رہا ہے لیکن آپکو غدار کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتی؟ اسطرح سے انکی تذلیل کرتے ہو تو خدا کا خوف نہیں آتا؟

بلوچ اور سندھی قوم جس طرح سے اپنے حقوق، اپنی آزادی کی جنگ لڑرہی ہے کبھی تعلیم کے لئے تو کبھی ہزاروں مسئلوں پہ آپکو دکھائی دیتی ہے اور دیتی رہیگی، امن سب کو چاہیئے لیکن مجبور کردیئے جاتے ہیں، مظلوم قوموں کو وہ نکلیں لیکن اسطرح سے آپ دنیا میں اپنا تماشہ بنا رہے ہیں۔

ویسے ہی سمی بلوچ اپنے باپ دین محمد کے لیے،
فرزانہ اپنے بھائی ذاکر مجید کیلئے، سیما اپنے بھائی شبیر کے لیئے، حسیبہ کی چیختی گونجتی آہ اور بہت ساری لاچار مائیں بچیاں ماہ زیب 12 سال کی بچی اپنے چاچو کیلئے سراپا احتجاج کبھی کراچی تو کبھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے پڑی ملینگی۔ لیکن ریاست مدینہ اپنا وقار کھو بیٹھا ہے.

اسی طرح ایک اور بلوچ خاتون حانی گل بلوچ 1 سال سے کراچی میں بے یار و مددگار خود کو اکیلے اٹھاتی سنبھالتی ایک کرب کی زندگی گزارتی اپنے منگیتر کی تلاش میں آپکو احتجاج اور مارچ کرتی ملیگی، ایک کنواری لڑکی جو تعلیم حاصل کرنے اپنے خاندانی وارث اور رشتہ دار نسیم بلوچ کےساتھ پڑھنے کیلئے آئی کس کو پتہ تھا کے اسکو اور اسکے منگیتر نسیم کو انکے ہوسٹل اپارٹمنٹ سے اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جائے گا، کچھ عرصہ میں حانی گل کو چھوڑ دیا گیا اور کہا گیا کہ نسیم بھی آجائے گا جتنا عرصہ وہ ٹارچر سیل میں بے گناہ ازیت ( جیسے اور کئی بھی) سہتی رہی کیوں؟

لیکن ایک بات جو اب بلکل سامنے ہے کہ جو سچ بولے گا اٹھا لیا جائے گا، جو حق مانگے گا اسے مٹا دیا جائیگا اور جو آواز اٹھائے گا اسے دفنا دیا جائے گا.

حانی گل فریاد کرتی دکھائی دے رہی ہے. لاپتہ چاہے بلوچ ہو یا سندھی یا پشتون اگر انکے اوپر کیسز ہیں اگر یہ سارے لاپتہ قصوار ہیں تو لایا جائے انہیں اپنے بنائے ہوئے جیلوں اور کورٹوں میں، یہ بےبس تو ہر طرح سے کہہ رہی ہیں کہ انہیں منظر عام پہ لے آؤ، ترستی ڈھونڈتی ماں بیوی بہن کو حوصلہ آئے حانی گُل سب کو تھپتپی دینے والی، خود کو نڈر اور با حوصلہ دکھاتی ہے لیکن جب سب کو امید دلا کر سلا دیتی ہے تب وہ اپنے آپ کو دلاسے دیتی ہے، روتی ہے۔

ریاستی جبر سے کوئی جھکا نہیں بلکہ ہر کوئی کھڑا پر عزم، بے خوف لا الہ الا اللہ کہہ کر کھڑا یا کھڑی سراپا احتجاج ہے کیونکہ جمہوری روایات کسی بھی آمر قوت کے خاتمے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔

آپ دھمکاتے ہو، ڈراتے ہو، گھر کے ہر فرد کو غائب کر دیتے ہو، آپ کمزور ہو جو راہ حق و راست سے سہمے ہوئے ہو جسکا زور ریپ کرکے اغوا کرکے قتل کرکے ٹارچر کرکے مسخ کرکے پھینک دینے تک محدود ہے، لیکن یہ مظلوم کی آواز عرش پاک تک گونجتی رہیگی ہر آنے والے کل کو آپکو ایک آواز سنائی دیگی جو انصاف کی آواز ہوگی، حق کی ہوگی جیت کی ہوگی۔ .


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں