گالم گلوچ کی سیاست کو موت دیجئے – شفیق الرحمٰن ساسولی

645

گالم گلوچ کی سیاست کو موت دیجئے

تحریر۔ شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

میرے دھرتی کے غیّور پِیر و جوان!
آپ بخوبی واقف ہیں کہ بلوچستان جہاں تک روایات کا امین خِطّہ ہے، اسی طرح خوبصورت سیاسی روایات کا پاسدار دھرتی بھی ہے۔

قبائلی تنازعات کی حد تک دیکھاجائے تو یہاں جنگی میدانیں ضرور سجتی رہی ہیں مگر تاریخ میں ہم نے کسی مُہذّب بلوچ اکابر کو اپنے مخالفین پہ غیراخلاقی فقرہ کٙسِی یا ذات پر کیچڑ اچھالتے نہیں سنا۔

جہاں تک بلوچ سماج کے سیاسی تاریخ کی بات ہے تو ماضی بعید کی شاندار سیاسی روایات تو عظیم تر رہی ہیں۔ دو دہائی سے پہلے گذشتہ ادوار کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے توبلوچ سیاسی تاریخ میں اکابرین سے لے کر سیاسی کارکنوں کے درمیان نکتہ ءِ نظر اور جدّ وجہد کے طریقہ کار پہ اختلاف تو ہوتی رہی ہے مگر اس میں‌ کسی قسم کا سطحی فقرہ بازی اور سیاست کی بنیاد پر ذاتی عِناد نہیں دیکھی گئی ہے۔

مختصراً بلوچ سیاست پہ بات کی جائے تو قبائلی تنازعات کے ہوتے ہوئے فراست، سیاسی تدبّر، اور رواداری و بردباری بلوچستان کے سیاست کی حُسن کو دوبالا کرنے والے خاص عوامل رہے ہیں۔

بلوچ سماج کی سیاست میں بڑی وضع داری اور شائستگی رہی ہے، سیاسی رہنما یہاں کی روایات اور قبائلی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے تقاریر کیاکرتے تھے، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیربخش مری، میرغوث بخش بزنجو، شہید نواب اکبرخان بگٹی، میرگل خان نصیر و دیگر کئی سیاسی رہنما سخت ترین سیاسی مخالفین کے بارے میں نکتہ ءِ نظر پیش کرتے وقت شائستگی اور وضع داری کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے۔

لیکن! انتہائی درد کیساتھ شیئرکرنا پڑتاہے کہ چند برس پہلے بلوچ سیاست کی موت کے اسباب نمودار ہونے لگے مثلاً سیاسی مخالفین کو قتل کرنا، سیاسی کارکنوں کو زدوکوب کرنا اور زیادہ تر حلقوں میں جب بچی کُچِھی سیاسی غیرت کی موت واقع ہوئی تو وہاں سیاست میں گالم گلوچ نے جنم لی جو اب بھری شباب میں ہے، ایسا لگتاہیکہ یہ اپنی موت سے پہلے پورے بلوچ خطّے کی سیاست کو موت دیکر چھوڑنے والی ہے۔

موجودہ وقت میں بلوچ سماج کی سیاست میں جو لب و لہجہ استعمال ہورہی ہے سیاسی روایات تو کیا بلوچی روایات کی پامالی کے ساتھ ساتھ قوم کی ناک کٹنے کے مترادف عمل ہے۔ سیاسی اختلافِ رائے میں شخصیات کی قبائلی حیثیت پہ انگلیاں اٹھائی جارہی ہوتی ہیں۔ دستار اچھالے جارہے ہوتے ہیں، روایات کو روندا جارہاہوتا ہے، تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے۔ سماجی ضابطوں‌، بلوچی و سیاسی اقدار و روایات کو مدنظر نظر رکھنے کے بجائے ہلکے پن کا مظاہرہ ہورہاہوتاہے۔

بد قسمتی سے سیاسی اختلافات ذاتی ناراضگیاں، غُصّے، عِناد، بغض و نفرت کی شکل اختیار کرچکے اور مزید کررہے ہیں، جن کے نتیجے میں مختلف سیاسی و قبائلی اکابرین کے مٙداحِین جو ایک مٹی سے جنم لینے والے ایک ہی بلوچ ماں کے فرزند ہیں ایک دوسرے کے ذات کو بُرا بھلا کہتے پھر رہے ہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں۔ غیر شائستہ و غیر مُہذّب بیانات و پوسٹس جاری ہوتے ہیں، جو نہایت مایوس کُن و افسوس ناک رویہ ہے۔

میں ایک ادنیٰ سیاسی کارکن اور قوم کے فرزند کی حیثیت سے کہتاہوں کہ قبائلی تنازعات اپنی جگہ، ان کا حل ہونا نہ ہونا ایک الگ معاملہ مگر عظیم سیاسی روایت یہ ہیکہ چاہے کتنا ہی مجبوری کیوں نہ ہو، کسی وقت کے سیاسی مخالفین کو اتنی جگہ چھوڑنی چاہیئے کہ وقت آنے پر کسی مشترکہ ایجنڈے پہ ایک ساتھ ہوسکیں۔ معاملہ فہم سیاسی کارکن کا تو شیوہ ہےکہ کبھی بھی سیاسی مخالفین کے لیے تمام کے تمام دروازوں کو تالا نہیں‌ لگاتا۔

وطن واسیو! غازی نورا مینگل بلوچ، سردار نورالدین مینگل، شہبازخان گرگناڑی، سردار رسول بخش ساسولی، میرخان محمد گرگناڑی، لالو مینگل، غازی سلیمان گرگناڑی، گہرام مینگل، نواب نوروزخان زہری، شہزادہ عبدالکریم احمدزئی، نواب خیربخش مری، نواب اکبر خان بگٹی سمیت تمام شہید اکابرین و جُہد کاران اور سردار عطاء اللہ خان مینگل، سردار اخترجان مینگل، ماما قدیر بلوچ، حسیبہ قمبرانی بلوچ، سیما بلوچ، حوران بلوچ، سمی بلوچ، ماہ گنج بلوچ، ماہ رنگ بلوچ، مہلب بلوچ سمیت تمام زندہ و حیات اکابرین و جُہدکاروں کے قربانیوں کی لاج رکھنے کی ضرورت ہے۔

بلوچ قوم کے عظیم فرزندو! قوم کے جگرگوشے جانانِ پِدر و مادر شہید و لاپتہ ہیں، وطن کی مائیں بیٹیاں سڑکوں پہ بھٹک رہی ہیں۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کا فقدان ہے۔ ساحل و وسائل دسترس سے باہر ہیں۔

الغرض! بلوچ قوم اور بلوچ دھرتی جس کربناک منزل سے گزررہی ہے اِسے وقتی مراعاتی سیاست کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ بہترین حکمتِ عملی کے تحت سیاسی تدبّر، سیاسی رواداری، بردباری کے ساتھ ساتھ حالات کا ادراک کرتے ہوئے فہم و فراست کے ساتھ حقیقی سیاست کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

میں بلوچ سیاسی و قبائلی عمائدین بالخصوص جھالاوان کے عظیم قبائلی و سیاسی اکابرین اور کارکنان سے مُلتمس ہوں کہ بلوچ سماج کو مزیدنفرتوں کی بھینٹ چڑھنے مت دیجئے۔ قبائلی تنازعات کو خالص فریقین کی حد تک دیکھ کر اپنی بساط کے مطابق جلد حل کی کوشش کیجئے۔

لہٰذا امید کرتاہوں کہ ہم سب صبر و تحمل سے کام لیں گے ، گالم گلوچ کی سیاست کو موت دینے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ ہر بلوچ سیاسی کارکن اپنے جماعتی پیغام کو لیکر بلوچ قوم کے حق میں مثبت سیاست کریگا اور بلوچ سماج کے قبائلی عمائدین قبائلی تنازعات کو جلد حل کرنے کی حتّی الاِمکان کوشش کریں گے۔۔۔! والسّلام
“وائے وطن ہُشکین دار”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔