بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4122 دن مکمل ہوگئے۔ اے این پی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر خان زمان کاکڑ، اصغر علی ترین، صوبائی نائب صدر عبداللہ عابد، مرکزی کمیٹی کے ممبر محدم خان کاکڑ، عبدالصادق کاکڑ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ، لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور بیوی زرینہ بلوچ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس موقع پر شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کا کہنا تھا کہ شبیر بلوچ کے جبری گمشدگی کو چار سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ ہم چار سال سے حکومت پاکستان سے اپیل کرتے آرہے ہیں کہ اگر شبیر بلوچ نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں اپنے ہی عدالتوں میں پیش کرے۔
سیما بلوچ نے کہا کہ عدالتوں اور کمیشن کے سامنے حاضریاں دیکر ہم تھک چکے ہیں لیکن ہمیں ہر بار اگلے پیشی میں آنے کا کہاں جاتا ہے۔ جب ہم اگلے پیشی میں جاتے تو سوال کیا جاتا ہے کہ “کیا نام یہی ہے، والد کا نام یہی ہے۔”
سیما بلوچ نے کہا کہ ہمیں اپنے بھائی کے نام کے ساتھ ان کے لاپتہ ہونے کی تاریخ اور دن یاد ہے۔ ہم کس طرح اس دن کو بھول سکتے ہیں جو ہم پر قیامت کی طرح گزری، لیکن جب ہم کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کس تاریخ کو کتنے لوگوں کے سامنے لاپتہ ہوئے۔
انہوں کہا کہ تمام امیدیں ٹھوٹنے کے باوجود ہم کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہیں کہ شاید ہمیں انصاف مل سکے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ طاقت پر انحصار کرنے والی ریاستی پالیسی اس لیے ناکام رہا ہے کہ بلوچ پشتون اور سندھی نوآبادیاتی سیاسی ثقافتی یلغار سے مغلوب ہونے کی بجائے اپنی متوازی سیاست اور ثقافت کے ساتھ زندہ رہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمانی نظام فوجی پالیسی اور میڈیا کے کاروباری ٹھیکیدار سب ہی بلوچ، پشتون اور سندھی کی پرامن جدوجہد سے اس قدر خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ مذکورہ قوموں کو ہر طرح سے کچلنے اور زیر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بلوچ قوم پر طویل ظلم اور تشدد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، امن کے نام پر بلوچ قوم کو خوف کے اندھیروں میں عدم تحفظ کا احساس دلاکر انہیں نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ظلم و جبر کے واقعات کے بعد بھی سلیکٹڈ وزیراعلیٰ مسکرا کر لاپتہ افراد کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو جذباتی اور ناراض کہہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔