پولیس کو پولیس ہی رہنے دو، جج اور جلاد مت بناؤ – محمد خان داؤد

162

پولیس کو پولیس ہی رہنے دو، جج اور جلاد مت بناؤ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سندھ کے لوگ ایسے ہیں جن کے لیے پلیجو نے کہا تھا کہ
”باہر سے p hd کر آئیں پھر بھی سالن میں نمک کم ہو جائے،زیا دہ ہو جائے،نہانے کا پانی ٹھنڈا،یا گرم ہو جائے،روٹی کالی یا جل جائے تووہ phdڈاکٹر اپنی بیوی کا سر کلھاڑی سے دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دے گا،وہ پڑھ لکھ کرسب کچھ بن جائے، جج،وکیل، ڈاکٹر یا اور کچھ پر سندھ میں داخل ہو کر ہی وہی پڑھا لکھا شخص جرگوں کا منتظمین بن جائیگا اور جرگہ کرواتا پھرے گا۔

جب اس کے پاس کوئی سردار، وڈیرہ حاکم آئیگا تو وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائیگا، ایسے سندھ کے پڑھے لکھے لوگ سندھ کے معاشرے میں تبدیلی لائیں گے؟

جبکہ میں یہاں ان پڑھ سندھیوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کر رہا!“
یہ خیالات رسول بخش پلیجو کے سندھ کے پڑھے لکھے لوگوں کے حوالے سے ہیں
پلیجو کے یہ خیالات مجھے اس لیے یاد آ رہے ہیں کہ جب سندھ کی پولیس خود ہی جج اور جلاد بن بیٹھی ہے
تو پو رے سندھ میں پولیس کے جج اور جلاد والے کردار کو لیکر پولیس کو شاباشی دے جا رہی ہے۔
اس وقت سندھ کو پولیس کے وہ جرائم یاد ہی نہیں رہے جو پولیس نے وردی میں کیے۔

مجھے یہ کہنا چاہیے کہ پولیس کے اس وقت جج اور جلاد والے کردار نے پولیس کے ان سب گناہوں کو دھو دیا ہے جس میں پولیس سر سے لیکر پاؤں تک غرق تھی، جس میں پولیس جلاد تھی ایسی جلاد جس کے لیے اوشو کی یہ بات بلکل درست ہے کہ
”وہ آتے ہیں کچھ نہیں سوچتے اپنے ہاتھوں میں تیز دھار آلہ لیتے ہیں اور جسموں کو کئی حصوں میں بانٹ کر رکھ دیتے ہیں!“

ایسی پولیس اب اس وقت جج بنی ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم سندھ پولیس کو مبارک باد کے اعزازات سے ڈھک چکا ہے سیکڑوں لوگوں نے اپنی آئی ڈی والی تصویر کو امجد شیخ کی تصویر سے ڈھک دیا ہے
اور سندھ شرمندہ ہے!
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سندھ کے سب لوگ اپنے کیے گناہ امجد شیخ کے پردے میں چھپا رہے ہیں
پھر آئیں ایسا کریں کہ عدالتوں کو تالا لگا دیں
قانوں کی کتابیں جلا دیں
آئین کی شقوں کو ملیا میٹ کردیں
پولیس کو جج اور جلاد بنا دیں
اور ججوں کو چالیس روزہ چلے پہ بھیج دیں
یہ تو کوئی انصاف نہیں
وہ بھی وحشت تھی جس میں ایک مجرم نہ جرم کیا اور اپنی وحشت سے معصوم بچی سے زیا دتی کی
اور یہ بھی جرم ہے جس میں پولیس خود ہی جج اور جلاد بن بیٹھی اور ایک گرفتار مجرم کو فُل فرائی کرد یا
کیا تم جرم کو جرم سے دھونے پر خوش ہو رہے ہو؟
کیا جرم سے جرم دھویا جا سکتا ہے؟
کیا گناہ سے گناہ دھویا جا سکتا ہے۔

وہ بھی ایسا گناہ جس گناہ میں پولیس کا وہ کردار کھل کر سامنے آئے جس کردار کے پیچھے مرتضیٰ بھٹو کو انصاف کی تلاش میں پچیس سال گزر گئے۔جس گناہ میں ڈاکٹر دیپک اپنی ٹانگیں گنوا بیٹھا۔جس گناہ میں سُنیتا راٹھوڑ اپنی بغل میں ڈاکٹر دیپک کیس کی فائل دبائے رُل رہی ہے۔جس گناہ میں راو انوار نے سینکڑوں معصوم انسانوں کو قتل کر دیا اور سندھ نے دیکھا کہ وہ معصوم لوگ جنہیں پولیس مقابلے میں مارنے کے دعویں کیے جا تے رہے ہیں جب وہ اپنے جسم پر گولیاں کھا کر تاریکی میں گرتے تو ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہو تے ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹی ہو تی اور ان کے پیروں میں بیڑیاں ہو تیں
ایسے گناہ! جن گناہوں کو راؤ انوار نے سیڑھی بنائی اور اتنی بلند پر پہنچ گیا جس بلندی کو دیکھ کر زرداری میڈیا میں کہتا تھا کہ
”یہ بہادر بچہ ہے!“

ایسے گناہ جن گناہوں سے پولیس وردی بھری پڑی ہو ئی ہے جن گناہوں کے بدولت رسول بخش بروہی کی ماں اتنی روئی کہ اس کے آنسوؤں کو دیکھ کر سندھو شرم سار ہوا اور سندھ میں سندھو کا پانی ہی کم ہو گیا۔

جن گناہوں میں سیکڑوں انسانوں کا خون چوہدری اسلم کی گردن پر حساب کتاب کے لیے باقی ہے
ایک ایسا ہی گناہ امجد شیخ سے بھی ہوا ہے
پر افسوس تو اس بات پر ہے کہ اس گناہ کے چھینٹے اب سندھ کے دامن پر بھی جا پڑے ہیں۔
اور اب سندھ لاکھ چاہیے پر اب اس کا دامن بھی داغ دار ہو گیا ہے
ایک گناہ کو دوسرے گناہ سے کیسے دھویا جا سکتا ہے؟
اور سندھ نے ایک گناہ کو دوسرے گناہ سے دھونے پر امجد شیخ کو سرٹیفیکٹ دے دیا
بغلیں بجائیں
گیت گائے
وا ہ واہ کی
ترانے گائے
پھول برسائے
اور پولیس گردی کا شکار بن جانے والی تمام روحوں نے ماتم کیا
کیا سندھ میں اتنی بھی شرم نہیں کہ وہ پولیس کو کہے کہ
”وہ پولیس،بنے جج اور جلاد نہ بنیں!“
اور سندھ پولیس کے اس مکار کردار پر خاموش نہ رہتا پر ایک چیخ بن کر کشمور سے کارونجھر تک پولیس کا گریبان پکڑتا اور پولیس سے کہتا کہ اب مزید کوئی فُل فرائی اور ہاف فرائی نہیں!
پر سندھ کیا
عدالتیں بھی خاموش ہیں
ایسے ناحق قتل پر عدالتیں سو موٹو ایکشن کیوں نہیں لیتی؟
ججز پر رقت طاری کیوں نہیں ہو تی کہ اب ان کا کام پولیس نے سنبھال لیا ہے؟
کیا اب عدالتوں کو تالے پڑ جائیں گے؟
کیا یہی سندھ پولیس مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو کب گولی ما ریگی؟
کیا یہی سندھ پولیس اُم رباب کے وارثوں کو گولی ما ریگی؟
کیا یہی سندھ پولیس فضیلہ سرکی کے اغوا کاروں کو گولی ماریگی؟
کیا یہی سندھ پولیس نقیب اللہ کے قاتل کردار راؤ انوار کو گولی ماریگی؟
کیا یہی سندھ پولیس قبر سے نکال کر چوہدری اسلم کو گولیاں ماریگی؟
نہیں یہ پولیس کچھ نہیں کر سکتی
سوائے اس کے کہ
سندھ کے معصوم انسانوں کو فُل فرائی کرے
اور ہاف فرائی کرے؟
اس لیے پولیس کو پولیس ہی رہنے دو
جج اور جلاد مت بناؤ!
اور سندھ کو کیا ہے
وہ ناحق قتل پہ روئے بھی
اور ناحق قتل پہ ناچے بھی
کیوں کہ سندھ کا حال بہت بُرا ہے
بہت بُرا
بہت بُرا
بہت بُرا!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں