پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کو تربت کا مختصر دورہ کیا، تربت یونیورسٹی میں انہوں نے آواران اور ہوشاپ ایم ایٹ اور بسیمہ خضدار این 30 سڑکوں کا افتتاح کرنے کے ساتھ یونیورسٹی فیز ٹو اور ٹیچنگ ہسپتال تربت سے منسلک دو سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کا افتتاح بھی کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق تربت یونیورسٹی ہی میں ان سے بلوچستان حکومت وزراء کی طرف سے بلائے جانے والے کچھ شخصیات کی ملاقات بھی کرائی گئی۔
علاوہ ازیں عمران خان کے دورہ تربت کے دوران سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ ایئرپورٹ چوک سے ڈی بلوچ اور ایم ایٹ تربت یونیورسٹی سے جوسک کراس تک شاہراہ ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے مکمل طور پر بند کردی گئی تھی جبکہ سڑک کے قریب دکانیں اور شاپنگ مارکیٹ بھی زبردستی بند کروائے گئے۔
پاکستانی وزیراعظم کی سیکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے تربت کے تمام سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور ہسپتال ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بند کرائے گئے، اس کے علاوہ شہر میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کرتے ہوئے ہر قسم کے کاروباری مراکز، دکانیں، مارکیٹس اور پٹرول پمپس بھی زبردستی بند کروائے گئے جبکہ ضروری کام کے سلسلے میں سفر کرنے والے شہریوں کو سخت چیکنگ اور تذلیل کا شکار ہونا پڑا۔
انجمن تاجران کے مطابق وزیراعظم کی آمد کے موقع پر شہر میں زبردستی دکانیں بند کرکے ایمرجنسی کا ماحول پیدا کیا گیا۔
آل پارٹیز کیچ کی طرف سے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے وزیراعظم کے دورہ کے موقع پر غیر معمولی سیکیورٹی کو کرفیو سے تشبیہ دیتے ہوئے شہریوں کو گھروں میں محصور کرنے، تمام تعلیمی ادارے بند اور شہر میں زبردستی شٹر ڈاون کی سخت مذمت کی گئی۔
یاد رہے کہ عمران خان کے دورہ سے ایک دن قبل شہر میں غیر اعلانیہ کرفیو کا نفاذ کرتے ہوئے انتہائی سخت سیکیورٹی ماحول بنایا گیا اور شہریوں کو شہر آنے اور واپس جاتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہزیمت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔
ضلعی انتظامیہ کی طرف سے شہر میں تعلیمی اداروں کی بندش کے ساتھ انجمن تاجران کو تمام کاروبار مکمل سیل کرنے کی سخت وارننگ دی گئی تھی جبکہ جمعہ کو جب وزیر اعظم تربت گئے تب بھی سیکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی اور شاہراہوں کو عام ٹریفک کے لیے زبردستی بند کردیا گیا جس سے مختلف علاقوں سے تربت آنے والے مسافروں اور مقامی لوگوں کو تکلیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔