نوآبادیاتی نظام اور نظام تعلیم
تحریر: جی آر مری
دی بلوچستان پوسٹ
نوآبادیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جہاں آپ کو آپ کے زبان، ثقافت، اور کلچر سے دور رکھا جاتا ہے۔ آپ کے زبان کو درجہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ جتنا بھی اپنی زبان کو بچانے کی کوشش کریں آخر کار آپ کے اُوپر نوآبادیاتی نظام کے اثرات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ آپ کی زبان اور ثقافت مٹ جاتے ہیں۔
نوآبادیاتی نظام میں آپ کے اوپر دوسرے زبانیں مسلط کی جاتی ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے تحت آپ کے زبان کو کمترین ثابت کرنے پے مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح آپ اپنی زبان، ثقافت، اور روایات کو بھول جاتے ہیں اور غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ قومیں اپنی زبان، ثقافت، اور روایات کو بھول جاتے ہیں اپنی شناخت کو بھلاکر دوسروں کے رواج کو اپناتے ہیں اور وہ قومیں زندہ ڈھانچے کی شکل میں عیاں ہو جاتے ہیں اور ایک محکومانہ زندگی سے اپنی گزر بسر کو آگے لیجانے کیلئے خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں، اسی طرح کے واقعات دنیا کی پوری تاریخ میں موجود ہیں۔
نوآبادیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے، جہاں معاشرتی بہت سارے ظلم کا روپ نیو اسٹریٹجی کے تحت مسلط کی جاتی ہیں۔ نوآبادیاتی اور جاگیرداری نظام جہاں بھی ہوتا ہے وہاں ہر طرح کے ظلم و فساد جنم لیتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ طبقاتی نظام جنم لیتا ہے اور طبقاتی نظام میں انسان کو اپنی قدر ہونے لگتا ہے وہ اپنی طاقت وجودیت کو جاننے لگتا ہے۔ اور یہی طبقاتی نظام لوگوں میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔
رکاوٹیں کتنی زیادہ کیوں نہ ہوں، پھر بھی بارش کا پانی اپنا راستہ نکال ہی لیتا ہے۔ ظلم کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو، ایک نہ ایک دن انقلاب کو آنا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح فرانس میں نوآبادیاتی اور طبقاتی نظام کی وجہ سے آخر کار انقلاب ہی آگیا۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
ہر کسی کو مرنا ہوتا ہے، ہر نظام کو بدلنا ہوتا ہے، اسی طرح ایک دن ظلم کو بھی امن میں بدلنا ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح آج بلوچستان میں ہر طرح کا ظلم دیکھنے کو ملتا ہے بلوچستان میں نوآبادیاتی نظام اس قدر بڑھ چکا ہے کہ شہید حیات بلوچ جیسے نوجوان طلباء کو سرعام اور بے گناہ مار دیا جاتا ہے۔
کلثوم بی بی جیسے بہنوں کو گھروں کے اندر گھس کر بے گناہ شہید کردیا جاتا ہے اسی طرح اس نظام کو چادر میں لپیٹتے ہیں ۔ نو آبادیاتی نظام اس قدر بڑھ چکا ہے کہ مزدور اور درمیانہ طبقہ آواز اٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔ بلوچستان کے تمام تر قدرتی وسائل کو لوٹا جارہا ہے اور ان وسائل کے بدلے بلوچ طلباء کو تعلیم تک نہیں دی جارہی ہے۔ نوآبادیاتی نظام ہی تعلیم کا اصل دشمن ہے، یہی نظام تعلیم کو مکمل طور پر درہم برہم کر دیتا ہے۔
آج کے دور میں یہی تعلیمی نظام آپ بلوچستان اور بلوچ طلباء کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ بلوچ طلباوں کو سرعام بے گناہ شہید کر دیا جاتاہے۔ ہمارے بلوچستان کے یونیورسٹیوں کے ہا سٹلز میں کیمرے نصب کرکے بلوچ طالبات کو حراساں کیا جاتا ہے اور جس کے تحت طلبہ طالبات کے اندر بہت سے مایوس کن اور سائیکالوجیکل مسئلے مسائل جنم لیتے ہیں۔
کبھی Online کلاسس کے نام سے بلوچ طلباء وطالبات کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ کبھی اسکالرشپ تو کبھی ریزرو سیٹوں سے محروم رکھا جاتا ہے اور کبھی بلوچستان کے اساتذہ کے خلاف بد نیتی کا رواج سامنے لاتے ہیں اور اس کی حالیہ مثال سی ٹی ایس پی اور تربت بی آر سی کا مثال ہے۔
اسی لیئے کہتے ہیں تعلیم ہر انسان کیلئے بیسک رائٹس ہے اور یہ ریاست کی زمہ داری ہے۔ آج کے دور میں بلوچستان کے طلباء کو کئی مشکلات کا سامنا ہے، تعلیم کے حوالے سے چاہے یہ طلباء بلوچستان کے اندر پڑھ رہے ہیں یا بلوچستان کے باہر صوبوں میں پڑھ رہے ہوں۔ جب بھی طلباء کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے یا کوئی تعلیمی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو انہی کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے انہیں روڈوں پے لانگ مارچ کرنے پے مجبور کیا جاتا ہے۔
کیا اس لئیے ان بنیادی مسئلوں پے غور نہیں کیا جاتا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں یا بلوچ طلباء ہیں؟
بلوچستان کی تمام یونیورسٹیوں میں ہر طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ چاہے وہ بی ایم سی میں ہاسٹلوں کا مسئلہ ہو یا انٹرنیٹ کا اور کسی میں بجلی کا بحران تو کسی میں پانی کا بحران، آخر کار یہ بلوچستان کے سالانہ ریلیز فنڈز کے پیسے کہاں استعمال کیجاتی ہیں؟ یا یہ فنڈز کے پیسے اس قدر کم ہوتے ہیں کہ ایک یونیورسٹی میں اس Post Modernism دور میں بھی انٹرنیٹ، پانی اور بجلی کا مسئلہ درپیش ہے؟
کب تک بدعنوانی کرتے رہو گے آخر کب تک طلباء وطالبات کے حقوق کھاتے رہو گے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔