سندھ کے قوم پرستوں بحریہ ٹاون نامنظور کا نعرہ کب لگاؤ گے؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
سندھ کے دانشور، سماجی کارکن، سیاسی کارکن اور سول سوسائیٹی وفاق کا سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر ممکنہ قبضے کے خلاف کراچی سے کارونجھر اور کشمور سے کیٹی بندر تک تو سراپا احتجاج ہیں پر ان کی آنکھوں میں تب دھول پڑ جاتی ہے جب ان کو بحریہ کے قبضے کا آئینہ دکھایا جاتا ہے۔
قادر مگسی سے لیکر زین شاہ، ایاز لطیف پلیجو سے لیکر ثنان قریشی تک سب وفاق کے جزائر کراچی میں احتجاج بھی کرتے ہیں اور مزید احتجاج کی دھمکی بھی دیتے ہیں، پر جب ان ہی سندھ کے قومپرست لیڈروں کے سامنے ملک ریاض،بحریہ کے قبضہ گیریت پر بات ہو تی ہے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔
ان لیڈروں کو نیلگوں پانیوں میں موجود جزائر تو چاہیں پر زمیں پر موجود ماں جیسی دھرتی نہیں چاہیے!
یہ قوم پرست لیڈر سندھ پنجاب بارڈر پر کئی گھنٹوں کا دھرنا تو دیتے ہیں پر اس طرف رخ کر کے کوئی بات بھی نہیں کرتے جس طرف بحریہ کا بہت ہی قیمتی دروازہ نصب ہے اور وہ ان ہی خوش نصیبوں کے لیے کھلتا ہے جن خوش نصیبوں کے بحریہ کے آنگن میں عالیشان بنگلے اور فلیٹ ہیں!
یہ سندھ کے غدار ہیں یا سندھ کے بیٹے ہیں۔
امین فہیم کے بیٹے کو نیب نے بحریہ کے بنگلوز سے گرفتار کیا تھا اور وہیں پر اس سے بار گنینگ ہوئی اور وہ بہت سے پیسے دیکر اب اس ہی بنگولز میں عالیشان طریقے سے رہ رہا ہے۔
کیا یہ قومی غیرت ہے یا قومی بے غیرتی؟
سندھ کا کمزور طبقہ بحریہ کے خلاف اپنے حال سے جنگ کر رہا ہے
اور سندھ کا امیر طبقہ ان ہی عالیشان گھروں میں رہ کر مٹتے سندھ کو دیکھ رہا ہے
یہ قومی غیرت ہے یا قومی بے غیرتی؟
سوال یہ ہے کہ سندھ کی دانش کو سندھ اور بلوچستان کے جزائر تو چاہیں پر وہ دھرتی کیوں نہیں چاہیے جس کی قبضہ گیریت اب سیکڑوں نہیں،ہزاروں نہیں پر لاکھوں ایکڑ پر محیط ہے!
ملک ریاض اور اس کے چہیتے ملیر کی زمیں پر قبضہ کرتے ہیں،پرانے گوٹھوں کو انتظامیہ،پولیس سے مل کر بندوق اور بلڈوزر کی طاقت سے خالی کراتے ہیں مال مال جمع کرتے ہیں اور پھر جب پھنس جاتے ہیں تو انتظامی اداروں سے بارگنینگ کر کے پھرملیر کی زمینوں کا رخ کرتے ہیں
یہ ایک بار نہیں ہوا ہے یہ بار بار ہوا ہے
اور آگے کتنی بار ہوگا یہ نہیں معلوم
اور وہ بار گنینگ کوئی چھوٹے موٹے روپوں میں نہیں ہو تی،جیسے ملیر کی زمیں ہر قبضہ لاکھوں کے ایکڑ کے حساب سے ہے تو بار گنینگ بھی ہزاروں،لاکھوں،کروڑوں میں نہیں اربوں میں ہے
کیسی عجیب منطق ہے
اور کیسی لاجواب منطق ہے
زمیں بھی ملیر کی
اس زمیں کا پیسہ بھی ملیر کا
پر زمیں پر قابض بھی ملک ریاض
اور ان پیسوں کا وارث بھی ملک ریاض
ملک ریاض جب لاکھوں ایکڑ زمیں پر قبضہ کرتا ہے تو پکڑا جاتا ہے اور پھر اربوں روپے دے کر پھر سے اور زمیں پر قبضہ شروع کر دیتا ہے تو اس سے ملیر اور ملیر کے ان باسیوں کو کیا ملتا ہے جن کے پیروں سے بندوق اور بلڈوزر کی طاقت سے زمیں چھین لی جا تی ہے اور وہ اپنی طاقت کی بنیاد پر مزاحمت بھی کرتا ہے۔
پر دور کہیں سندھ کی دانش،سندھ کی عقل،سندھ کی سیاست۔سندھ کی سول سوسائیٹی جھک مار رہی ہو تی ہے
کل سندھ کی دانش کراچی پریس کلب پر جھک ما ر رہی تھی اور آج سندھ کی دانش ٹھٹہ کی اداس گلیوں میں جھک ما ر رہی ہے،یہ ایک امین فہیم کیا اگر بحریہ سے وہ لسٹ طلب کی جائے کہ اس مقبوضہ زمیں پر سندھ کی سیا ست،دانش عقل،اور سول ساسائیٹی کے کتنے لوگ اپنی راتوں کو رنگین کرتے ہیں تو ایک طویل لسٹ میسر ہوگی جسے دیکھ کر مائی موکھی کاٹھوڑ کے جبلوں میں خودکشی کر لے گی!
سندھ کے شعور کو جزائر پر تو قبضہ نامنظور ہے پر اسے سندھ کی زمیں پر قبضہ کیوں منظور ہے؟
پی پی کی باقیات کو سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر وفاق کا قبضہ تو نامنظور ہے
پر اسے ملیر کی مٹتی باقیات منظور ہے
پی پی کے نامراد اسمبلی لیڈر جزائر کے خلاف تو اسمبیلی میں بل منظور کراتا ہے
پر اسے معلوم ہی نہیں کہ سندھ کی زمیں پر بحریہ کا کیا کھیل جا ری ہے
میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں سندھ کو ان سرداروں،بھوتاروں،وڈیروں،کے کرموں پہ مت چھوڑو
ان میں سے کوئی ساحلوں پر قبضہ گیر ہے کوئی رتیلی پہاڑوں پر
یہ سندھ کی بقا کی بات کیسے اور کس منھ سے کر سکتے ہیں؟
یہ ایسے ہی ہے کہ ملیر کا کوئی منتخب نمائیدہ جزائر پر قبضے کے خلاف تو پہلی صف میں ہو
اور جب بات بحریہ ٹاؤن کی آئے تو یہ اس صف میں نظر آئے جہاں نقشے بچھے ہوئے ہوں اور سودے بازی کی باتیں ہو رہی ہوں
یہ تو ایسے ہے کہ ٹھٹہ اور کوہستان میں جزائر کے خلاف ملک اسد سکندر اپنے ہاتھوں میں بینر لیے نعرہ لگا رہا ہو کہ ”وفاق کا جزائر پر قبضہ نا منظور!“
اور جب بحریہ کی بات آئے تو یہی اپنی اوطاق میں بیٹھے نقشے بچھائے ریٹ طے کر رہا ہو
ہر بار ملک ریاض ملیر کی زمیں پر قبضہ کرتا ہے اور نیب سے بار گنینگ کر کے صاف ہوجاتا ہے
اور یہ کب تک چلے گا کون جانیں؟
اور سندھ کی دانش،عقل شعور سیا سی کارکن،سول سوسائیٹی کیا ہے؟
یہ تو بلاول کی جو تی
اور زرداری کی دھوتی ہیں
جب دل چاہیں ان کو بدل لیں!
”جزائر پر وفاق کا قبضہ نا منظور!“
اور کراچی پر بحریہ کا قبضہ؟
تو سندھ ے سیاسی شعور کے منھ میں دھول پڑ جا تی ہے
یہ ہما ری جنگ ہے اور ہمیں ہی لڑنی ہے اس جنگ میں وہ نہیں آئینگے
جو بلاول ہاؤس کا در پیٹ رہے ہیں اور ان کے ہاتھ زخمی ہو چکے ہیں
پر ان وفاداروں پر بلاول ہاؤس کا در کھلتا ہی نہیں اور در پیٹتے پیٹتے ہاتھ زخمی ہو چکے ہیں