تیرہ نومبر ، یومِ بلوچ شہدا
تحریر: شائستہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
13 نومبر کو یومِ بلوچ شہدا کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ بلوچ وطن کا ہر وہ فرزند جس نے اپنی سرزمین سے وفاداری ، اپنی ساحل وسائل کی حفاظت اور اپنی ماں بہنوں کی ننگ و ناموس کو بچاۓ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ تاقیامت بلوچ قوم کی دل میں حیات رہیں گے۔
زندگی سب کو پیاری ہے مگر ان بلوچ فرزندوں کو اپنی زندگی سے زیادہ مادرِ وطن عزیز تھا لہٰذا سرزمین کے لیے انہوں نے خود کو وقف کرنے سے پہلے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ شہداۓ بلوچستان میں ایسے ہزاروں نام موجود ہیں جنہوں نے تاریخ میں اپنا نام سونے کے اوراق سے لکھوایا۔
شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید بالاچ مری، شہید اُستاد اسلم اور دیگر شہیدوں نے اپنا فرض سر انجام دیا اور آج وہ مادرِ وطن کی آغوش میں سو رہے ہیں ۔
آخر وہ کونسی چیز ہے جس نے شہید نواب اکبر خان بگٹی کو اس عمر میں باغی بنا ڈالا؟ آخر وہ کونسی چیز ہے جس کے لیے شہید استاد اسلم نے اپنے لختِ جگر شہید ریحان جان کو قربان کیا؟آخر وہ کونسی چیز ہے جس کے لیے ایک بلوچ ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے شہید نورخان جان کو وقف کیا؟
ان تمام سوالات کا بس ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے “مٹی کی محبت” ۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کے لیے ہمارے ہزاروں بھائی اپنی جان قربان کرنے سے پہلے نہیں ہچکچاۓ۔
ان سب شہیدوں نے اپنی آنکھوں میں ایک ہی خواب سجاۓ رکھا تھا اور وہ ہے ” آزاد بلوچستان “۔ ہمیں اپنے شہیدوں کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے اور آزاد وطن کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے ۔
آخر میں ، میں تمام بلوچ شہدا کو سرخ سلام پیش کرتی ہوں انشااللہ ہماری شہدا کا خواب جلد حقیقت میں تبدیل ہو گا اور ہم اپنی سر زمین کو پنجابی سامراجوں سے آزاد کرا لیں گے ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔