بی ایس او آزاد کا قومی کونسل سیشن اور ذہنی اختراعات
تحریر: شکور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ روز سوشل میڈیا کے توسط سے معلوم ہوا کہ بی ایس او آزأد اپنے بائیسویں قومی کونسل سیشن کا انعقاد کر رہی ہے۔ تین نومبر کو جاری کردہ بیان میں کامیاب کونسل سیشن کے انعقاد کا اعلان کیا گیا، جسے دیکھ کر خوشی اور ملامت کے امتزاج جیسی احساس نے جنم لیا. خوشی اس لیے کہ تنظیم پر ریاستی ظلم و بربریت اور پابندی کے باوجود تا حال تنظیم اپنی جڑوں کو مضبوط کیے ہوئے ہے اور ان کٹھن حالات میں تنظیم نے قومی کونسل سیشن کا انعقاد کرکے بلوچ قومی تحریک کو جلا بخشی ہے. اس کیساتھ تنظیم کا رکن نہ ہونے کی حیثیت سے بطور طالبعلم خود کو ملامت کرتا پایا کہ بلوچ نوجوانوں نے آج بھی سرخ سمندر کے علم کو بلند کیا ہوا ہے جبکہ ہم جیسے بیگانہ اس تاریخی مرحلے پر خواب خرگوش اختیار کیئے ہوئے ہیں.
جہاں بی ایس او آزاد نے کامیاب کونسل سیشن کے انعقاد کا اعلان کیا، وہیں سیاسی حلقوں میں ایک نئے بحث و مباحثے کو لیکر ذہنی اختراعات نے جنم لیا ہے. بی ایس او آزد کے تیسرے روز جاری کردہ بیان کو لیکر چند سینئر سیاسی کارکنان نے سوشل میڈیا پر بھونچال کھڑی کر دی اور تنقید کے نام پر طنز کا سہارا لیکر تنظیم کے نئے عہدیداران کی کردار کشی کو تنقید کا لبادہ پہنایا گیا. اس عمل کو نقطہ چینی کا نام دیا جائے تو میں غلط نہیں ہوں گا کیونکہ اِن حضرات کو تین دن کی کاروائی صرف چند اصطلاحات نظر آئے جبکہ تنظیمی رہنماؤں کی اِن کٹھن حالات میں سیشن کا انعقاد کرنا اُن کے نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی.
نئے منتخب شدہ چیئرمین ابرم بلوچ کے خطاب میں اردو کے چند الفاظ کو لیکر سیاسی کارکناں نے تحریک میں ایک اہم اساس گردانے جانے والے بی ایس او آزاد کے ساکھ کو بالائے طاق رکھ کر طنزً جملے کسے اور خوب مشغلہ بنایا. قومی تحریک کے اس اہم اساس کو طنز کا نشانہ بنانا میرے خیال میں سیاسی بالیدگی نہیں اور ایسے رجحان نہ صرف قومی اداروں بلکہ قومی تحریک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں.
اردو سے مجھے کسی قسم کی ہمدردی نہیں اور قبضہ گیر کے خلاف برسر پیکار قومی ادارے کو بھی یقینا اردو سے ہمہ قسم کی ہمدردی نہیں ہوگی اور نہ ہی ہونی چاہیئے. سیاسی بیان تنظیمی موقف کا پرچار کرتی ہیں اور ہر تنظیم کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کا موقف تمام عوام تک پہنچے.
بلوچ ایک کثیر السانی قوم ہے لہٰذا تنظیمی موقف کو عوام تک پہنچانے کےلیے پالیسیوں میں لچک ضروری ہے.
لہٰذا ذہنی اختراعات کو لیکر اداروں کو طنز کا شکار بنانا اور تنظیمی ساکھ کو نقصان پہنچانا قومی سیاست میں ایک غلط رجحان کا شکار بنا رہی ہے. بلوچ قومی تحریک اداروں میں انتشار کا کسی بھی صورت متحمل نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے.
بی ایس او آزاد سے تعلق نہ ہونے کی حیثیت سے میں نہ تو تنظیم کے کسی عمل کا جوابدہ ہوں اور نہ ہی تنظیمی موقف کے پرچار کی حیثیت رکھتا ہوں. اس تحریر میں تمام خیالات ذاتی ہیں اور تحریر کا بنیادی محرک ایسے رجحان کی نشاندہی تھی جو قومی تحریک میں انتشار کا سبب بن سکتی ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔