بابا،بیٹی کی زباں! دردوں بھری، شکایتوں بھری! – محمد خان داؤد

142

بابا،بیٹی کی زباں! دردوں بھری، شکایتوں بھری!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

تالیہ!جب سندھ کے دوسرے بڑے شاعر ایاز کو ان کی باتوں، ان کے نظریات اور ان کی کتابوں کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا جاتا تھا اور جب ان کی کتابوں پر بندش لگا دی جا تی تھی تو وہ شاعر سوال کیا کرتا تھا کہ
”میری شاعری!میری باتیں،میرے نظریات اور میری کتا بیں کیا ہیں؟“
اور اپنے اس سوال کا خود ہی جواب دیتا تھا کہ
”وہ تو ہوائیں ہیں!“
اور بند سلاخوں کے پیچھے کہتا تھا کہ
”ہواؤں نہ روکیو!“
”ہوائیں نہ روکو!“
میری بیٹی تالیہ!
یہی بات برِ صغیر کے مہان سیاستدان گاندھی جی بھی کہا کرتے تھے جب ان سے لوگ شکایت لے کے آتے تھے کہ آپ نے یہاں نہ بولنے کا روزہ رکھا ہوا ہے فرنگیوں سے ٹکر لی ہوئی ہے اور بھارتی اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم دلا رہے ہیں تو گاندھی جی ان کو لاجواب کر دیا کرتا تھا کہ
”ہوائیں نہ روکو!جس نے اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو زمانے کے ساتھ ہم آہنگ نہ کیا وہ ایسے مٹ جائیگا کہ وہ نہ تھا!“
تو میری بیٹی تالیہ!
وہ جو تمہیں مجبور کرتے ہیں کہ بابا کے سامنے رونا نہیں،پشتو میں بات نہیں کرنا،کیس کے بارے میں بات نہیں کرنا،بیس منٹ میں بات ختم کرنا،صرف ایک شخص اند ر جائیگا،ملاقات اکیلے میں نہیں ہو گی،اور لوگ بھی ساتھ ہونگے،کیا ایسی بے ہودہ شراط عائد کرنے والے نہیں جانتے کہ
ہواؤں کو کس نے روکا ہے؟
ایک بیٹی اور بابا کی محبت تو ہوا کی ماند ہو تی ہے جو فضاء سے ہو تی دل میں اتر جا تی ہے بھلے بابا انگلش بولتا رہے اور بیٹی اپنے کانوں سے وہ انگریزی شبد سنتی رہے پر جب صبر جواب دے جائے تو پھر بیٹی بابا سے کن شبدوں میں مخاطب ہو؟جب بیٹی کئی ماہ بعد بابا کو دیکھے اور روتی جا ئے تو کیا بابا کے انگریزی شبد کارگر ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے پیا ری سی بیٹی کو چپ کرائے؟
کیا گم شدہ بابا بہانوں میں لینا کسی بولی میں ہوتا ہے؟
کیا پیا ری سی بیٹی کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کے لیے بھی اردو کے الفاظ کام میں لیے جا سکتے ہیں؟
کیا وہ اپنے بابا کی بوڑھی آنکھوں سے گرتے جدائی کے آنسو بھی انگریزی زباں میں صاف کریگی؟
کیا وہ اردو میں حالِ دل کہے؟
کیا وہ انگریزی میں کہے کہ ”بابا تم مجھے بہت یاد آتے ہو؟“
کیاوہ اردو کا سہارا لیکر اپنے بابا سے پوچھے کہ ”بابا آپ کا قصور کیا ہے؟“
یہ باتیں تو جب کی جا سکتی ہیں جب انسان کے دل کے پاس غم کا کوئی بسیرہ نہ ہو
پر جب دل ہی غم سے لبریز ہو تو کون سی بولی کام میں آسکتی ہے؟
جب تو انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور وہی بولی یاد رہ جا تی ہے جو بولی ماں کی بولی ہو تی ہے۔

ذولفقار علی بھٹو!آکسفرڈ کی انگلش جانتا تھا پر جب اسے سیا ست میں دھوکہ ہوا اور یاروں کا ساتھ چھوٹ گیا تو بھری عدالت میں جج نے پوچھا بھٹو صاحب کیا تمہیں اپنے حق میں کچھ کہنا ہے
بھٹو ایک دانشور بھی تھا کئی کتابوں کا مصنف بھی تھا اور وہ اردو،سندھی،آکسفرڈ کی انگلش میں جج کو حیران کر سکتا تھا پر بھٹو نے جب بھی وہی زبان منتخب کی جو اس کی ماں کی زبان تھی اور بھٹو نے جج کو اس سوال کا جواب دیا کہ
”درداں دی ما ری دلڑی علیل اے!“
تو کئی ماں کے بعد ملاقات میں تالیہ اپنے بابا سے کسی اور زباں میں کیسے مخاطب ہو سکتی ہے؟
پر وہ ہوئی جب تک زباں نے غیر الفاظ کا ساتھ دیا اور وہ اداکا ری کر سکی جب تک تو ٹھیک تھا پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے
بہت رونا بھی ماں کی بولی میں
بابا سے لپٹ جانا بھی ماں کی بولی میں
بابا کے بوڑھے گالوں سے آنسو صاف کرنا بھی ماں کی بولی میں
بابا تم کیا کھا تے ہو
ناشتے میں کیا لیتے ہو
کیا تم بیمار ہو
کیا یہاں پرفیوم بھی ملتا ہے
بابا تم یہاں سے کب چھوٹو گے بھی ماں کی بولی میں
جاگتی آنکھوں سے زندہ بابا کو دیکھنا وہ بھی ماں کی بولی میں
بولتے بولتے رک جانا اور رکتے رکتے بولنا وہ بھی ماں کی بولی میں
کبھی بابا کو لالا کہنا اور کبھی لالا کہتے کہتے بابا کہنا وہ بھی ماں کی بولی میں
بابا کے سفید بالوں میں ہاتھ پھیرنا اور پھر باتیں کرنا وہ بھی ماں کی بولی میں
ہنستے ہنستے رودینا اور رو رو کر ہنسا وہ بھی ماں کی بولی میں
اور پھر پیچھے بیٹھے ملٹری کے آدمی کا کہنا کہ بس اب تین منٹ رہ گئے ہیں وہ ماں بولی میں نہیں تھے
اور پھر ”ٹائم از اپ“کہنا بھی ماں کی بولی میں نہیں تھا
پر آخری بار بابا سے لپٹنا اور بابا کے گال چومنا اور اپنے گال بابا کے کانپتے ہونٹوں کے نزدیک لے جانا ماں کی بولی میں تھا
کیا وہ جان پائیں گے کہ ماں کی بولی کیا ہو تی ہے؟
ماں کی بولی ایک ایسا دلا سہ ہو تی ہے کہ اگر وہ سلاخوں کے پیچھے بھی کی جائے تو زندگی کا احساس ہوتا ہے اور تالیہ اس دن تھوڑا ہی صحیح پر اس ملٹری کینٹ سے زندگی کا احساس ساتھ لائی تھی جو وہ اپنے قید بابا کو دے گئی!
ماں بولی ایک ایسا پرندہ ہو تی ہے جو ہر جگہ پرواز کر سکتا ہے رمز میں بھی اور جنگ میں بھی
ماں بولی ایک ایسی محبت ہو تی ہے اگر مل جائے تو سب غم بھول جا تے ہیں!
ماں بولی ایسی ہی ہوائیں ہو تی ہیں جن کے لیے ایاز نے کہا ہے کہ
”ہواؤں نے روکیو!“
تو تالیہ اور اس کے بابا کی ملاقات کو کسی اور زباں کے رنگ میں کیسے بند کیا جا سکتا ہے؟
جہاں جھپی سے لیکر آنسوؤں کی زباں ایک ہی ہو
ہواؤں کی زباں
محبت کی زباں
درد وہ درماں کی زباں
شکایتوں کی زباں!
بابا،بیٹی کی زباں!
دردوں بھری
شکایتوں بھری
ایسی زباں کو کسی اور زباں میں بند نہیں کیا جاسکتا
پھر پیچھے بھلے سائے میں بندوق لہرا رہی ہو!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں