ایاز لطیف پلیجو، کارونجھر کی سندھ کو دیکھو
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ایاز لطیف پلیجو ڈیم نہ منظور کے نعرے کے تحت سندھ میں سجاگی مارچ کررہے ہیں
کیا ایاز لطیف پلیجوکارونجھر کے درد سے واقف ہیں؟
جس میں کارونجھر کی کور دھماکوں سے کٹ رہی ہے
کیا ایاز لطیف پلیجو تھر کے درد سے واقف ہیں؟
جس درد میں پورا تھر ”اسارو“ بن چکا ہے۔
کیا ایاز لطیف پلیجو اس گوڑانو ڈیم کے درد سے واقف ہیں، جس ڈیم میں ہر روز تھر ڈوب مرجاتا ہے؟
کیا ایاز لطیف پلیجو اس تھر کے درد سے واقف ہیں، جس تھر میں معصوم بچوں کی قبریں ایسے آباد ہیں، جیسے بارش کے بعد تھر کی ریت میں کھمبیاں اُگ آتی ہیں؟
کیا ایاز لطیف پلیجواس تھر کے اس درد سے واقف ہیں، جس درد میں تھری مائیں معصوم بچوں کو سوتے لوگوں آدھی رات کو مٹھی اس آس پہ لے جا تی ہیں کہ ”شاید سانول بچ جائے!“
اور پھر سانول نہیں بچتا!
کیا ایاز لطیف اس درد سے واقف ہے جس درد میں تھری انسان ہی نہیں مور بھی مر جا تے ہیں؟
کیا ایاز لطیف پلیجو تھر کی اس پیاس سے واقف ہے، جس پیاس میں بس تھری انسانوں کی ہی زبانیں باہر نہیں لٹک رہی ہوتیں پر تھری مور بھی کارونجھر کی کور پر اُڑتے بادلوں کو دیکھ کر خود کشی کر لیتے ہیں؟
کیا ایاز لطیف پلیجو تھر کے اس درد سے واقف ہے، جس درد کو ایاز نے”کتھے نہ بھجو تھک مسافر“ میں بیان کیا ہے جس سے اس کتاب کو آگ لگ جاتی ہے؟
کیا ایاز لطیف پلیجو تھر کے اس درد سے واقف ہے، جس درد میں ایک ماں بھوک کو تو برداشت کر لیتی ہے، پر جب اس کے معصوم بچے کو بھوک لگتی ہے تو وہ ماں اس بچے کے ساتھ بچوں کی طرح روتی ہے؟
کیا ایاز لطیف پلیجو اس تھر سے واقف ہے جس تھر میں سیاست تو ہوتی رہتی ہے، عوامی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جس تھر میں رسول بخش پلیجو کی کتاب”نیٹھ تھ صبح تھیندو“ تو پڑھی جاتی ہے پر کبھی کوئی صبح نہیں ہو تی!
کیا ایاز لطیف پلیجو اس درد سے واقف ہے، جس درد میں تھری لوگ گندم کو آٹا نہیں، روٹی نہیں پر مٹھائی سمجھتے ہیں؟
کیا ایاز لطیف پلیجوان مندروں کے درد سے واقف ہے جن مندروں میں کافر بستے ہیں اور مومنین آکر ان مندروں کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں؟
کیا ایاز لطیف پلیجو تھر کے اس درد سے واقف ہیں، جس درد میں بس فاقہ کشی ہی ہے
صبح بھی
شام بھی
اور رات بھی!
کیا ایاز لطیف پلیجو نہیں دیکھتے کہ حکمرانوں نے تھر کیساتھ کیسا اتھیا چار کیا ہے؟ ان حکمرانوں نے پہلے تھریوں سے زمینیں چھینیں، پھر تھر کے مقدر میں زہر آلود ڈیم بھر دیا اب وہ تھر کا کارونجھر بھی چھین رہے ہیں۔
کیا ایاز لطیف پلیجو تھر کے اس درد سے واقف ہے جس درد میں تھر کی ایسی حالت ہو جا تی ہے جس حالت کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ میں ایک ہوٹل میں چائے پینے کو رُکا تو دیکھا کہ ہوٹل کے اندر ایک لڑکا تڑپ رہا ہے اور اس کی بہت بُری حالت ہے اور جب ایاز نے چائے بنانے والے لڑکے سے پوچھا کہ اس لڑکے کو کیا ہوا ہے تو چائے بنانے والے لڑکے نے کہا سائیں اسے ”اسارو“ ہوا ہے
تو ایاز نے پوچھا یہ اسارو کیا ہے؟
تو چائے بنانے والے لڑکے نے جواب دیا کہ سائیں یہ ایک بیماری ہے جو تھر میں کنوئیں کا پانی پینے سے ہو تی ہے جس میں انسان کے جسم میں کیڑے پڑ جاتے ہیں، پیپلز پارٹی نے پو رے تھر کے جسم کو اسارو میں مبتلا کر دیا ہے، پورا تھر کیڑوں سے بھر گیا ہے کیا ایاز لطیف پلیجو اس اسارو سے واقف ہے؟
کیا ایاز لطیف پلیجو یہ جانتا ہے کہ تھر میں معصوم بچوں اور ماؤں کو پوری روٹی میسر نہیں؟
کیا ایاز لطیف پلیجو اس بات سے واقف ہے کہ تھر کے معصوم بچوں کے حصے کا دودھ بھی پیپلز پارٹی والے پی گئے ہیں؟
کیا ایاز لطیف پلیجو اس بات سے واقف ہے کہ اینگرو والوں نے تھر باسیوں کو میٹھے خواب دکھا کر ان کے پیروں سے ان کی وہ زمین بھی کھینچ لی ہے جس زمیں میں کوئلہ بعد میں دریافت ہوا، پر اس کوئلے سے بھی پہلے ان تھریوں کے آباؤ اجداد کی ہڈیاں دفن تھیں، جو اب غم میں کوئلہ بن رہی ہیں۔
کیا ایاز لطیف پلیجو اس بات سے واقف ہے کہ تھر کے مٹی کے ہسپتال میں نہ تو کوئی دوا موجود ہے اور نہ ہی کوئی اُمید پھر بھی وہ مائیں اپنے بیمار بچے اپنے کاندھوں پر لاد کر سوتے لوگوں کے درمیاں آدھی رات کو اس اُمید پہ مٹھی لے جاتی ہیں کہ شاید سانول بچ جائے پر کون سمجھائے ان ماؤں کو کہ مٹھی کے اسپتال میں دوا کیا پر اب تو وہاں کوئی اُمید بھی نہیں اور وہ مائیں ماتم کرتی لوٹتی ہیں۔
کیا ایاز لطیف پلیجو ان ماؤں کے ایسے ماتم سے باخبر ہے؟
اگر باخبر ہے تو خاموش کیوں ہے؟
اور اگر با خبر نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سیاست چھوڑ کر کسی مزار کا مجاور بن جائے!
”ڈیم نامنظور!
وفاق کا سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضہ نامنظور!“
یہ تو سیاسی لالی پاپ ہے
یہ تو سیا سی ڈرامہ بازی ہے
یہ تو سیا سی آکسیجن ہے
یہ تو سیا سی جغدر بازی ہے
یہ تو سیاسی بلیک میلینگ ہے
اور کچھ نہیں
یہ نہ تو دردوں کی دوا ہے
اور نہ ہی وہ ہاتھ جو آگے بڑھ کر تھر کے آنسو پونچھ پائیں.
اور نہ ہی یہ وہ ہاتھ ہیں جو آگے بڑھ کر کارونجھر کو کٹنے سے بچا پائیں
سندھ اور بلوچستان کے جزائر کی تو سب کو فکر ہے پر ان ماہی گیروں کی حالت کو کون دیکھے گا جو زمانے سے ایک ہی طرزِ زندگی جی رہے ہیں
تھوڑی سی روٹی
اور تھوڑی سی کالی چائے!
ایاز لطیف پلیجو کو وہ ماہی گیر نظر نہیں آتے
ایاز لطیف پلیجو کو وہ میلی بستیاں نظر نہیں آتیں
ایاز لطیف پلیجو کو تھری معصوم بچوں کی بھوک نظر نہیں آتی
اگر اسے بھی کچھ نظر آتا ہے تو وہ جو مجھے بھی نظر آتا ہے اور تمہیں بھی
ایاز لطیف پلیجو تم اپنی سیاسی بازی گیری کے لیے پورے سندھ میں چل چل کر تھک جاؤ گے پھر بھی کارونجھر کی سندھ کے درد وہیں کے وہیں ہونگے۔
تم ان دردوں کے لیے کیا کر رہے ہو؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔