ابتدائی نتائج کے مطابق صدر ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن نے متعدد ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن نتائج میں کلیدی اہمیت کی حامل ریاستوں میں دونوں کے درمیان کانٹے کی ٹکر بھی ہے۔
امریکا کے 59ویں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اب ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق ریپبلکن پارٹی کے امید وار صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن نے متعدد ریاستوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جیت کے لیے کم سے کم 270 الیکٹورل کالج کی ضرورت ہوتی ہے اور ابتدائی نتائج کے مطابق جو بائیڈن کو اس میں سبقت حاصل ہے۔ لیکن یہ ابتدائی نتائج ہیں اور نتائج کے اعتبار سے اہم اور کلیدی ریاستوں کے نتائج آنے میں ابھی وقت لگے گا۔
صدر ٹرمپ نے ریاست کینٹکی، ویسٹ ورجینیا، ساؤتھ کیرولائنا، الاباما، مسیسپّی، ٹینیسی، اوکلاہوما اور ارکانساس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جو بائیڈن نے ورمنٹ، ورجینیا، روڈ آئی لینڈ، نیو جرسی، میساچوسیٹس، میری لینڈ، الانوئز، ڈیلیور اور کنیٹیکٹ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن یہ وہی ریاستیں ہیں جہاں گزشتہ انتخابات میں بھی انہیں جماعتوں کو کامیابی ملی تھی۔اس لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ریاست لوئیزیانا، یوتھا اور نیبراسکا میں بھی صدر ٹرمپ کو کامیابی حاصل ہوئی تاہم ان نتائج پر بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ 2016 کے انتخابات میں بھی ان ریاستوں میں ریپبلیکنز کو ہی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
لیکن فلوریڈا، پینسیلوینیا، اوہائیو اور نارتھ کیرولائنا جیسی ریاستیں، جو نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں، وہاں دونوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ ان ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ مختلف انتخابی جائزں کے مطابق انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار 77 سالہ جو بائیڈن کو صدر ٹرمپ پر اچھی خاصی سبقت حاصل تھی۔
امریکا کی تاریخ میں پہلی بار ان انتخابات میں تقریبا ً10 کروڑ افراد نے ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی اپنا ووٹ ڈال دیا تھا جس میں ایک کروڑ سے بھی زیادہ ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے تھے۔ کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے امریکا میں اس بار بڑی تعداد میں لوگوں نے پہلے ہی اپنا ووٹ ڈالنے کو ترجیح دی۔