ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور
تحریر: سعیداحمد
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان وه واحد خطہ ہے جہاں لوگ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بلوچستان سے باہر جانے کا خواہش رکھتے ہیں، جس کی اہم وجہ یہاں کا نظام ہے، یہاں ایک دقیانوسی نظام چل رہا ہے جس نے میرٹ کو پاؤں تلے روندھ رکھا ہے۔ اس کے علاوه کئی طلباء کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے ہوئے ہیں، سفارشی نظام ہے کہ دن بہ دن بڑھ رہاہے۔ بلوچستان میں جب طالب علم چار یا پانچ سالہ ڈگری حاصل کرتا ہے اور بعد میں ان کے متعلق جو خالی آسامیاں آتے ہیں وه فارم جمع کرنے کے بعد یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ یہاں میرٹ نام کی کوئی چیز ہی نہیں، کوئی بھی نوکری حاصل نہیں کرسکتا جب تک ان پہ کوئی خاص بندے کہ مہربانی نہ ہو-
میں جو بات کرنے جارہا ہوں، وه ہے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر، اینڈ میرین سائنسز (لوامز) یہ بلوچستان کا وه درسگاه ہے جس میں یہ تمام کے تمام نظام آجکل اچھی خاصی طرح چل رہے ہیں، اسی یونیورسٹی میں سیکورٹی گارڈز سے لیکر کلرک تک اور کلرک سے لیکر لیکچرار تک سب کے سب اسی بنیاد پر براجمان ہیں.
اس یونیورسٹی میں داخلہ جاری ہونے کا اشتہار سوشل میڈیا میں تصویر اور ویڈیوز کے ساتھ اس طرح رچایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاسکے، تصویر اور وڈیوز کو اسطرح ایڈٹ کرتے اور ایپکٹس دیتے ہیں کہ لوگ آسانی سے دهوکہ کھاجاتے ہیں، لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں هم اپنے بچوں کو ایک اعلٰی یونیورسٹی میں داخلہ دے دہے ہیں، جب طالب علم یہاں پڑهنے آتے ہیں تو انہیں بہت سی تکلیفیں جھیلنے پڑتے ہیں۔
لسبیلہ یونیورسٹی میں پانچ بوائز هاسٹل ہیں جو مختلف ناموں سے جاننے جاتے ہیں، جدید دور میں انٹرنیٹ ایک طالب علم کیلئے حد درجہ ضروری ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے لسبیلہ یونیورسٹی کے پانچ هاسٹلوں میں سے صرف دو هاسٹلوں میں انٹرنیٹ میسر ہے جبکہ باقی هاسٹلوں میں انٹرنیٹ کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہے اور ایک هاسٹل جو فیمیل ٹیچروں کا ہے اُس میں بھی انٹرنیٹ نہیں ہے کئی دفعہ درخواست دینے کے باوجود ابھی تک انٹرنیٹ مہیا نہیں کیا گیا ہے هاسٹلوں میں انٹرنیٹ مہیا نہ کرنا ایک طالب علم کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے-
بوائز هاسٹلوں میں سے ایک هاسٹل اولڈ ھاسٹل کے نام سے جاننا جاتا ہے اس هاسٹل میں بجلی آنکھ مچولی کھیلتی ہے اس میں ایک واٹر کولر ہے جو اولڈ هاسٹل کی طرح اولڈ ہوچکا ہے نہ جانے کتنی سال پرانی ہے جو بلکل کباڑہ بن چکا ہے ہفتے میں تین یا دو دن ضرور خراب ہوجاتا ہے-
لسبیلہ یونیورسٹی کا هاسٹلوں کا ایک اہم مسئلہ، جگہ کی کمی ہے، جب دور دراز کے لوگ یہاں آتے ہیں تو اُن لوگوں کو پہلے سے پتہ نہیں ہوتا کہ یہاں جگہ کا مسئلہ ہے، اس یونیورسٹی میں جو وارڈن ہیں، وه برائے نام کے ہیں، یہ طالب عملوں کے سامنے بے بس اور بے اختیار لگتے ہیں ان پانچوں هاسٹلوں میں جو طالب علم پہلے سے رہائش پذیر ہیں وه انکو اپنی ملکیت سمجهتے ہیں، یہ لوگ جس کو چاہیں اُسی کو جگہ دیتے ہیں، میں آخر میں اُن طالب علموں اور اُن کے والدین سے یہ پُر زور التجا کرتا ہوں خدارا اپنے لئے پہلے سے جگہ رہائش کا بندوبست کریں کل یہ نہ ہو جو ہمارے ساتھ ہوا، جو ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے اپنے بیگ اپنے ساز و سامان هوٹل پہ رکھ کر کلاس لینے کے لئے جاتے تھے-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔