کوہِ غم اور گراں،اور گراں،اور گراں – محمد خان داؤد

184

کوہِ غم اور گراں،اور گراں،اور گراں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

گجرنوالا میں پی ڈی ایم کاپنڈال سجا ہوا تھا۔ مریم نواز سے لیکر بی بی زرداری تک،اپنے کاندھے پر پشتون چادر سجانے والے سے لیکر مولانا فضل الرحمن تک سب دھاڑ رہے تھے اور بلوچ مظلوم طالبِ علموں کا قافلہ اس رات اسی روڈ سے گز ر رہا تھا۔ان لیڈران کے منہ چیخ رہے تھے اور دوسری طرف ان بلوچ طالبِ علموں کے پیر ایسے زخمی تھے جیسے پیر کسی وقت میں بھٹائی کے زخمی ہوا کرتے تھے
زخموں سے چور چور اور سوجے ہوئے
وہ لیڈران جی ڈی والے سے مائیک درست اور آواز ٹھیک کرنے کی فرمائش کرتے
اور وہ مسافر ان راہوں میں اپنی ٹوٹی چپل گھانٹے اور پھر چل پڑتے
وہ لیڈران اسٹیج پر بیٹھ کر گپے ہانکتے
اور وہ مسافر محبتوں جیسے بلوچ چلتے چلتے رُک جا تے اور پھر چل پڑتے
وہ لیڈران تقریر سے پہلے اپنا گلا صاف کرتے اور عینک کو درست کرتے
جب کہ مسافر بلوچ،سفر کے دوران رُکتے اپنی زخمی پیروں پر پٹی باندھتے اور پھر چل پڑتے
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے لیڈران کی منزل،مے خانہ اور مسیت ان چرنوں میں ہے جن چرنوں میں اس وقت مانے خان بیٹھے ہیں
پر کون بتائے گا کہ ان مسافر بلوچ طالبِ علموں کی منزل کہاں ہے؟
وہ شال سے کئی کئی کلومیٹردور اپنے کچے گھروں سے اس لیے ملتان آئے تھے کہ وہاں صوفی بہاؤ دین زکریا کے نام پر تعلیمی ادارہ قائم ہے جہاں وہ اپنی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے،پر ریاست کی اندھی ہٹ دھرمی نے انہیں مسافر بنا دیا ہے
اب ان کی کتابیں،عشق اور محبت بھرے بوسے بہت دور رہ گئے
اب تو وہ ہیں،سفر ہے،اور بہت سا درد!
جب وہ گجرنوالا سے گزر رہے تھے تو پی ڈی ایم کے پنڈال سے ایسی آواز کیوں نہ آئی کہ
”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!“

مجھے مریم بی بی سے کوئی شکایت نہیں، مجھے اسلام کے داعی سے کوئی شکایت نہیں۔ مجھے پشتون روائیتی چادر والے سیا سی اکابر سے کوئی شکایت نہیں اور نہ ہی مجھے مفاہمتی چیمپئین بی بی زرداری سے کوئی شکایت ہے انہوں نے تو جو کچھ کہنا تھا وہ انہوں نے کہا
پر مجھے شکایت سردار اختر مینگل سے ہے
مجھے شکایت ڈاکٹر مالک سے ہے
اور مجھے شکایت جہانزیب جمال دینی سے ہے
وہ تو ان مسافر بلوچ طالبِ علموں کی آواز بن سکتے تھے۔وہ ان کا حال سن سکتے تھے۔وہ ان سے مل سکتے تھے۔وہ ان کا مسئلہ معلوم کر سکتے تھے۔اور پھر پی ڈی ایم کا پنڈال اور مائیک استعمال کر کے وہ سب کچھ کہہ سکتے تھے جن سے ان مسافر وں کی دل کو تسکین ہو تی،ان کے مسافر پیروں کو راحت ملتی،ان کے زخمی پیر وں پر سرخ گلاب کھل اُٹھتے،اور ان کے چہرے مسکراتے
پر ان بلوچستان کے حقوق کے داعی بلوچ سردار نماں لیڈروں نے ان مسافر بلوچ طالب علموں کے لیے اپنی زباں سے جب کچھ نہ کہا جب گجرنوالا میں پنڈال سجا ہوا تھا اور اقبال اسٹیڈیم کی اک طرف سے وہ قافلہ گر رہا تھا جو قافلہ
اداس کتابوں کا قافلہ تھا
جو قافلہ خاموش قلموں کا قافلہ تھا
جو نہتے علم کا قافلہ تھا
جو بلوچ مظلوم طالب علموں کا قافلہ تھا

تاریخ نے ان سردار نما بلوچ لیڈروں کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ ان مسافر بلوچوں کے لیے بات کریں جو بس اس لیے مسافر بنے ہیں کہ اس ریاست نے ان کے تعلیم حاصل کرنے کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور تعلیم کو ان پر اتنا مشکل کر دیا ہے جتنا مشکل یزید نے حسینی قافلے پر پانی کے گھونٹ کو مشکل کر دیا تھا
قافلہ آ رہا تھا وہ خاموش رہے
زخمی پیروں والا قافلہ گزر گیا وہ خاموش رہے
زخمی پیروں والا قافلہ جا چکا وہ خاموش ہیں
وہ کیوں خاموش ہیں
اگر وہ ایسے ہی خاموش رہیں گے تو بلوچ دیس کی تاریخ انہیں کباڑ خانے میں دفن کر دیگی
اور کل کو ان کا نام تک نہ لیا جائیگا اوربلند وہ بالا پہاڑوں سے لیکر مٹیالے میدانوں تک ان کا نام رہے گا

کل جن کے پیر زخمی تھے،کل جو پنجاب کی دھرتی کو اپنے زخمی پیروں سے بہت پیچھے دھکیل رہے تھے اور ان کے زخمی پیر آگے جا رہے تھے۔جن کی کتابیں اور محبوبائیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں جن کے دل اور زخمی پیر ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور دھڑک رہے تھے جن کے گرم بوسے بہت پیچھے رہ گئے تھے جن کی چمکتی آنکھیں ان کے ماتھوں پر نئی امید اور نئے ولولے سے چمک رہی تھیں
جن کی فکر مند مائیں شال سے بھی بہت دور رہ گئی تھیں جن کی یادیں ان کی دلوں میں گرم سانسوں کے ساتھ موجود تھیں،وہ جو علم کے مسافر پیاسے تھے جنہیں علم کا مسافر بنا دیا گیا
وہ جو راہ چلتے اپنے زخمی پیروں پر پٹی باندھتے اور پھر چلتے
وہ جو بند بیٹری والے موبائل فون کو بار بار دیکھتے کہ کہیں کسی محبوبہ کا فون تو نہیں آ رہا
وہ جو رات کو بہت تھوڑی نیند کرتے اور دن کو بہت سفر
وہ جو منفرد مسافر تھے
وہ جن کے پاس بس خوابوں کے سوا کچھ نہ تھا
وہ جو نہ سوتے اور نہ خواب دیکھتے
پر پھر بھی راہوں میں ان کی خوابوں سے ملاقات ہو ہی جا تی
وہ خواب!
جو انہیں سونے نہ دیں
وہ خواب جو انہیں رونے نہ دیں
اگر وہ خواب نہ دیکھتے تو مسافر بھی نہ بنتے
وہ جو مسافر ہیں
وہ جو کل گجرنوالا سے گزرے
وہ جو آج اکاڑہ سے گزر رہے ہیں
وہ جو کل اسلام آباد میں ہونگے
آنے والا کل ان کا ہے
اور علم کی سب مسندیں ان کی ہیں
وہ جو دوران سفر ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ
”کوہِ غم اور گراں،اور گراں،اور گراں
غمزدو تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔