ڈاکٹر دیپک سے لمزدور رسول بخش بروہی تک
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
بھلے سندھ میں مسنگ پرسن کی ساری زمہ داری خلاقی مخلوق پر ڈال دی جائے اور وہ انہیں وہاں لے جائیں جہاں جاتے ہوئے ایک سرکا ری ڈارئیریکٹر نے واپس آتے یہ بیان دیا تھا کہ”وہ شمالی علاقہ جات دیکھنے گیا تھا گاڑی ایک جگہ پارک کر دی تھی جو وہیں پر رہ گئی“
اس بیان کے بعد مطیع اللہ جان نے بھی کہا تھا کہ
”جی ہاں میں بھی شمالی علاقہ جات دیکھنے گیا تھا شکر ہے کہ میرے جانے کی سی سی ٹی وی موجود تھی“
یہ روائیت کسی بھی طرح اچھی نہیں کہ آدمی ذلیل کیا جائے،اغوا کیا جائے،اس پر تشدد کیا جائے اور واپس لوٹتے وہ ان کا نام ہی نہیں لے سکے اس کے لیے بہت زیادہ بہا دری کی ضرورت ہے۔
ایسی ہی چہ مگویاں اس وقت سندھ میں جا ری ہیں کہ
مشتاق مہر کو شمالی علائقہ جات گھمانے والے لے گئے تھے
یا خلائی مخلوق؟اور مشتاق مہر کوئی سندھ کا مزدور،ہاری کمی،کمار،خمیسو،بچایو،نہیں پر وہ پو رے صوبہ کے پولیس چیف ہیں۔ اس نظام کا کیا کہیے کہ یہاں جب وہ آتے ہیں تو وہ انہیں بھی ساتھ لے جا تے ہیں جن کا سندھ میں طوطی بول رہا ہوتا ہے۔اس بات کو لیکر سندھ پولیس میں دھڑا دھڑ چھٹی کی درخواستیں لکھی جا رہی ہیں اور سندھ پولیس کے افسران اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ ان کی بے عزتی ہے۔
پر کیا یہ بس بے عزتی ہے؟
یا اس عمل سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پولیس بھی کچھ نہیں پولیس تو کیا پولیس کا چیف بھی کچھ نہیں، پولیس کا چیف کیا پر ہو سکتا ہے سندھ کا وزیر اعلیٰ بھی کچھ نہیں وزیر اعلیٰ کیا پر ہوسکتا ہے کہ سندھ صوبے میں حکمران پارٹی کے کرتا دھرتا بھی کچھ نہیں۔ جب بھی بڑے بھائیوں کو کسی کی بھی ضرورت پڑی ہو آدھی رات کیا،شام کیا ِصبح کیا،راتوں کے شروعاتی اور اختتامی پہر کیا دن کا اجلا کیا جب بھی ان کو ضرورت محسوس ہو گی وہ انہیں لائین حاضر کر دیں گے جس کا رونا مشتاق مہر رو رہا ہے،جس کا رونا مراد علی شاہ سے لیکر بلاول بھٹو تک اور بلاول بھٹو سے لیکر اب وہ سب پولیس افسران رو رہے ہیں جو اپنے نائیبوں سے چھٹی کے درخواستیں ٹائپ کر وا رہے ہیں
پر کیا سندھ کی پولیس بھی باکردار ہے؟
یہ ایسی پولیس رہی ہے کہ جس کے دکھ میں رویا جائے؟
کیا یہ ایسی پولیس رہی ہے کہ جس کے دکھ عظیم کو دیکھ کر سندھ خون کے آنسو روئے؟
نہیں!سندھ اس پولیس کے لیے اپنی آنکھیں نم نہیں کریگا
کیوںکہ سندھ کے جتنے بھی لوگ اس وقت گم ہیں ان کو گم کرانے میں خلائی مخلوق کے ساتھ سندھ پولیس کا بھی اتنا ہی ہاتھ رہا ہے جتنا ہاتھ اس خلائی مخلوق کا رہا ہے۔اب جب سندھ پولیس کا چیف ہی خلائی مخلوق کے ہتھے چڑھ گیا تو پولیس مظلوم بن بیٹھی ہے۔
وہ مائیں،وہ بہنیں،وہ بیٹیاں،وہ محبوبائیں جو آج بدین،لاڑکانہ،حیدر آباد،سکھر،اور کراچی کے اداس پریس کلبوں پر ذلیل ہو رہی ہے ان کے گھروں کے پلال لٹکتے پردوں پر آدھی رات کو خلائی مخلوق کے ساتھ اور کون تھا؟دوسری بار عاقب چانڈیو کو گھر سے گھسیٹتے کون لے گیا؟سائیں تاج جویو کے بیٹے کی نفیس پیٹ پر سرخ دھبے کس نے چھوڑے؟ پو رے سندھ میں سرداروں،بھوتاروں،وڈیروں،میروں،پیروں کی نوکری کون کرتا ہے؟
کسی غریب مسکین ہاری کو بھوتار کے کہنے پر کون تھانے میں لے جا کر موچڑے مارتا ہے؟
اور اس ہاری کا بس یہ قصور ہوتا ہے کہ یا تو اس کی بیوی بہت خوبصورت ہو تی ہے یا اس کے گھر میں موجود جوان ہو تی بیٹی بہت حسین ہو تی ہے اور وہ حُسن اس ہا ری کا دشمن بن بیٹھتا ہے!
سندھ میں کسی کے بھی کہنے پر یہ ہاف فرائی یہ فل فرائی کون کرتا ہے؟
ماؤں کو ماتم کون کراتا ہے؟
سندھ میں تو تھانے دار وردی ہی نہیں پہنتے وہ اس تھانے کے بادشاہ ہو تے ہیں وہ ننگی پیٹ پر لُنگی باندھتے ہیں اور تھانوں میں ان کی حکمرانی ایسے چلتی ہے کہ مغل بادشاہ بھی دنگ رہ جائیں۔
یہ سوکھی نہروں میں ہاف فرائی،یہ پانیوں سے گیلی زمینوں میں فل فرائی،
وہ اداس لاشے جنہیں پھر پولیس کے سپاہی ایسی تذلیل سے اُٹھاتے ہیں کہ ان لاشوں کا پیر کہاں جا رہا ہوتا ہے اور ہاتھ اور سر کہاں؟اور اگر وہ لاش کسی لڑکی کی ہوتی ہے تو وہ ایسے لے جائی جا تی ہے کہ اس کی قمیض سے اس کے مردہ بے جان پستان باہر نکل آتے ہیں اور چلتے چلتے جھولتے جھولتے سوالیہ(؟)نشان بن جا تے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟
سائیں عطا محمد بھمبرو کو مسافر کس نے بنایا تھا؟
اس کے جوان بیٹے راجہ داہر کو رات کے آخری پہروں میں گھر سے کون لے گیا تھا؟
رسول بخش بروہی کو ناحق قتل کس نے کیا؟
ڈاکٹر دیپک کو دونوں پیروں سے مفلوج کرنے کو ہاف فرائی اور دیکھنے میں فل فرائی کس نے کیا؟
سُنیتا راٹھور کو انصاف کے لیے مسافر کس نے بنایا؟
نقیب اللہ کے خون سے ہاتھ کس کے رنگے ہوئے ہیں
سندھ پولیس کے تھانے اذیت گھر کیوں بنے ہوئے ہیں؟
آج جب سندھ پولیس پر کسی طاقت ور کا ہاتھ پڑا ہے تو سندھ پولیس مظلوم بن بیٹھی ہے
کیا واقعی سندھ پولیس مظلوم ہے؟
اگر سندھ پولیس مظلوم ہے تو ڈاکٹر دیپک سے لیکر مزدور رسول بخش بروہی کے جسموں میں چھید کس نے کیے
جن کے لیے کوئی اور نہیں پر تاریخ آپ ہی گواہ ہے کہ
رسول بخش مزدور تھا وہ رسول بخش بروہی نہ تھا
اور ڈاکٹر دیپک،ڈاکٹر دیپک تھا وہ دیپک سہانی نہ تھا
پر پولیس نے کس کی سنی،سنیتا راٹھور کی؟
یا اس ماں کی جس کے سامنے اس کے بیٹے کو بہت سی گولیاں ما ری گئیں اور وہ ماں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی
یا اس بوڑھے والد کی پولیس نے سنی جو انصاف کے پیچیدہ سفر کے دوران جان سے گزر گیا
پر انصاف نہیں ملا،پر اس غریب بوڑھے والد کی تو آرمی چیف نے بھی نہیں سنی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔