ڈاکٹروں کی غفلت، انتظامیہ کی نااہلی
تحریر: بختیار رحیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ویسے ڈاکٹروں کا پیشہ ایک ایسا پیشہ ہے، جو ذریعہ معاش کمانے کے ساتھ ساتھ ثواب کماکر انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر اور مریض کے درمیان ایک رازدای، مخلصی انسانی ہمدردی کا رشتہ جڑا ہوتا ہے، جو سب رشتوں سے عظیم ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات قراردیا ہے۔ اس لئے اشرف المخلوقات کے خدمت گار اللہ کے ہاں ایک اشرف انسان کا درجہ رکھتا ہے۔
انسان دوست اور ایماندار ڈاکٹرز کبھی بھی مریض کی علاج کرنے کے وقت پیسے کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ انسانی ہمدردی کے بنیاد مریض کے زندگی اور درد کا علاج دیکھتے ہیں۔ انکی یہی کوشش ہوتی ہے، مریض کو اچھے طریقے سے علاج کرکے ایک عظیم انسان کا درجہ حاصل کرسکیں۔ پیسے اپنے محنت اور ادویات کی قیمت دیکھ کر لیتے ہیں۔ کسی کی مجبوری درد، جسمانی تکلیف حادثات، سے ناجائز فائدہ اٹھانے کو گوارا نہیں کرتے۔
مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھے کچھ واقعات ہمیشہ یاد آتے ہیں۔ میرا دل خون کے آنسو بہاتا ہے۔ یہی کہتا ہوں یا اللہ یہ ڈاکٹرز انسان اور انسانیت کے خدمت کس طرح سرانجام دے رہے ہیں۔
نہ جانے میں ایسے واقعات کو اپنے علاقے اور معاشرے کے ڈاکٹروں کی نا اہلی کہوں ، یا غفلت پیسے کا ہوس سمجھوں، یا غیر تجربہ کاری، یا صحت کی انتظامیہ کا نا اہلی قرار دوں، یا اپنے بلوچ عوام کی قسمت کی شومئی لیکن میں دیکھتا ہوں۔ ہمارے بلوچستان میں بیشتر انسان کے ایک خدمتگار رشتہ یعنی ڈاکٹروں کا سوچ ، جذبہ اور لگن مریض کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر پیسہ بٹورنے پر ہوتا ہے۔ انسان اوراسکے درد تکلیف پر کوئی ہمدردی اور احساس نہیں ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے مریض دیکھے ہیں۔ جو بیمار یا معذور ہیں مختلف ہسپتالوں میں اپنا علاج کروانے کے لئے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں چھوٹی بیماری کے علاج کے دوران ڈاکٹروں کی غفلت سے وہ عمر بھر معذوری کی زندگی گذار رہے ہیں، کچھ مریض ڈاکٹروں کی غفلت سے اپنے قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں۔ جو کہ قابل افسوس عمل ہے۔
میں نے روز مرہ زندگی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مریض دیکھ کر ان سے بیماری اور اسکی وجہ پوچھتے ہیں، یہی جواب ملا ہے کہ وہ معمولی بخار اور کھانسی کے علاج کی چکر ڈاکٹروں کی غلط دوائی دینے سے یا انجیکشن لگانے سے بڑے بیماری اور پریشانی میں مبتلا ہوئے ہیں۔
گذشتہ سال کراچی کے سول ہسپتال میں ایک خضدار کے تحصیل گریشہ سے تعلق رکھنے والے ایک ساٹھ سال کی عمر کے بیمار کو اسٹریچر پر پڑا ہوا دیکھا۔ اسکی پیٹ سے ایک لمبا گوشت اور جلد سے بنا ہوا تھیلی نما نظر آیا، تو میں نے اس سے پوچھا، انکل آپ کی بیمار کیا ہے؟ آپ کو اصل میں ہوا کیا ہے؟
۔اس بندے نے اپنے بیماری اپنی زبانی بیان کرکے بتایا، میری آنکھوں سے آنسو آگئے۔
اس شخص کا کہنا تھا مجھے اپینڈکس ہوگئی تھی۔ مجھے ایمرجنسی کے طور پر خضدار کے سیول ہسپتال لے جایا گیا۔
وہاں کے ڈاکٹروں نے میرا آپرشن کروایا، وہاں میرے پیٹ کو جس طریقے سے چیر دیا گیا تھا، جس طرح قصائی جانوروں کی گوشت چیرتے ہیں۔
۔اسی وجہ سے میرا آپریشن ناکام ہوگیا۔ میں اس پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہوا ہوں۔ میرا اب صرف سانس آتا جاتا ہے لیکن میں ایک زندہ لاش کی طرح زندگی گذار رہا ہوں۔
میں رُو رُو کر اللہ سے پوچھتا ہوں۔ اپینڈکس کی بیماری کے وقت میں مرجاتا ۔ایسے زندگی کے بدلے سے لاکھ درجہ میرے لئے بہتر تھا۔ یہ گوشت کی تھیلی میری اوجڑی ہے۔
اسکای درد بھری کہانی، بیماری اور خونخوار درندہ صفت ڈاکٹروں کی پیٹ کی چیر پھاڑ کے نشان دیکھے، تو میری آنکھوں سے آنسو آگئے۔
دونوں ہاتھوں کو اوپر کرکے عرض کیا یااللہ یہ کس طرح کے لوگ ہیں، یہ ایسے غریب بلوچ عوام کے جان سے کھیل رہے ہیں۔
پچھلے سال ایسا ایک اور واقعہ سننے کو ملا۔ مجھے ایک نوجوان گڑگڑا کر ایک ڈاکٹر کی غفلت نا تجربہ کاری اور اپنے چار سالہ بچے کی موت کا واقعہ بیان کیا۔
ڈاکٹر کی غفلت کو بیان کرتے وقت اچانک، وہ رو پڑا تو مجھے بھی رونا آیا۔
اسکا کہنا تھا میرے چار سال کے بچے کو کھانسی بخار اور سینے کی تکلیف کی شکایت تھی، میں نے اپنے علاقے کے ایک جان پہچان والے ڈاکٹر کو فون کرکے پوچھا، اگر آپ اپنے گھر پر ہو تو میرا بیٹا بیمار ہے میں اسے لے کرآتا ہوں، آپ دوائی لکھ کر دے دیں۔
اس نے مجھے کہا، میں اپنے گھر پر موجود نہیں ہوں آپ ایک گھنٹے بعد اپنے بیٹے کو میرے گھر لے آؤ۔ ہم دو بندے موٹر سائیکل پر بچے کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے۔
اس نے میرے بچے کو ایک ڈرپ لگایا، اس میں کچھ انجیکشن ڈالا۔ کچھ دیر تک ڈرپ چلتا رہا ۔اندازا آدھا تک رہ گیا میرا بچہ بیہوش ہوتا رہا ۔ اسے پتہ چل گیا تھا، اس نے مجھے کہا بچہ ٹھیک ہو جائے گا اسے فوراَ گھر لے جاؤ۔
میں اپنے بچہ کوموٹر سائیکل پر بٹھا کر روانہ ہوا، آدھے راستے پر بچہ فوت ہوگیا۔ میں گھبرایا میں نے ساتھی کو کہا کہ موٹر سائیکل کو تیز چلاؤ ۔وہ موٹرسائیکل کو تیز چلاتا رہا جب ہم گھر پہنچے بچے کو گود میں اٹھایا بچہ رستے میں ہی دم توڑ چکا تھا۔
اسی دن سے اس صدمے نے مجھے ایک نفسیاتی مریض بنا ڈالا ہے، میرا صحیح سلامت بچہ گھر سے ڈاکٹر کے پاس گیا، لاش واپس آیا۔ میں سب کچھ اپنے نصیب پر ڈال کر رو رو کر دل بہلا رہا ہوں۔
اس نے سسکتے ہوئے لہجے میٍں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا، مجھے اس وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ ڈاکٹر نے کوئی غلط انجیکشن ڈرپ میں ڈالا ہے، بیٹے کو کھانسی اور چھاتی کا مسئلہ تھا، جو سردی کی وجہ سے ہوا، اس نے دوائی ایسے لگائی جو بیماری سے صحت یابی کے بجائے موت کا باعث بنی۔
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بچہ کمزور تھا ڈرپ تیز چلانے کی وجہ سے میرے بچہ کی موت کی باعث بنا۔ میں نے سب کچھ اللہ کی مرضی سمجھ کر ڈاکٹر کو پوچھا بھی نہیں نہ کوئی قانوئی کاروئی اور نہ ایف آئی آر کٹوانے کا سوچا ۔
کچھ دن پہلے گریشہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان مجھ سے ملا اسکے ہاتھ پر پٹی بندھی تھی، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ مجھے ہلکا بخار ہوا تھا ۔ ایک جان پہچان کے ڈاکٹر جو پچھلے پچاس ساٹھ سالوں سے اپنے علاقے کے ایک ہسپتال میں بطور ڈاکٹر علاج و معالجہ کا خدمت سرانجام دے رہا ہے ۔ ۔میں نے اس سے بخار کی انجیکشن لگوایا تو دوسرے دن میرا ہاتھ سوج گیا تھا ۔ بہت درد ہو رہا تھا ۔ بھائی لوگوں نے مجھے خضدار کے سیول ہسپتال لے گئے۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے کہا آپ کو ایک ایسا انجیکشن لگایا گیا ہے جسکی تاریخ ختم ہو چکی تھی، اسی وجہ سے آپ کے ہاتھ میں درد اور تکلیف ہورہا ہے۔
آپ کے ہاتھ کو آپریشن کرکے دوائی نکالنا پڑے گا۔ وہ دوائی ابھی تک جمی ہوئی ہے۔
میرے ہاتھ میں درد تھا، میں مجبور تھا، اپنا علاج سیول ہسپتال خضدار میں ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق جاری رکھا ۔
ڈاکٹروں نے میرے ہاتھ کو تین جگہ سے چیرا، پتہ نہیں اندر سے وہ دوائیاں جمی ہوئی تھیں یا نہیں۔ ٹانکہ لگایا مجھے چھٹی دیا میں گھر آیا
میرے ہاتھ کے چیرنے کی جگہ پر تکلیف شروع ہوگئی ۔ اب زخم خراب ہو رہا ہے ۔
میں پریشانی ہوکر کراچی آیا ہوں، جس ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں، وہ مجھ سے یہی پوچھتے ہیں کہ آپ نے کسی ڈاکٹر سےاپنے ہاتھ کو ایسے چیر لگوایا ہے یا جنگلی درندے نے تمہیں کاٹا ہے۔ یہی کہتا ہوں ڈاکٹر سے تو وہ مجھے کہتے ہیں اسکے اوپر ایف آئی آر درج کروا دو۔
میں یہاں کے ڈاکٹروں کو تو یہی کہہ رہا ہوں ہاں میں نے ایف آئی آر درج کروایا ہے لیکن اصل میں میں نے اس ڈاکٹر کو اپنا بلوچ اور علاقے کا سمجھ کر چھوڑ دیا۔ اپنا علاج کروا رہا ہوں۔
کیا یہ سارے دلخراش واقعات کی اصل وجہ ڈاکٹروں کی غفلت ھے یا پیسے کا ہوس ہے یا کم تجربہ کاری ہے؟ جو انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں معمولی بیمار کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ یا یہ انتظامیہ کے نااہلی ہیں۔
آخر میں خضدار سمیت بلوچستان کے تمام ڈاکٹروں سے ہاتھ جوڑ کر انسانی ہمدردی کے بنیاد پر اپیل کرتا ہوں۔ اپنے ہی معصوم اور مظلوم قوم کی جان اور زندگی سے ایسا نہ کھیلو۔ کوئی غریب، بے سہارا آپ لوگوں کے علاج سے اپنی قیمتی جان کھوئے یا بقیہ زندگی معذوری سے یا کوئی دوسری بڑی بیماری سے گزارے۔
میرا حکومت بلوچستان اور صحت کے عہدہ داروں سے یہی اپیل ہے کہ خدارا عوام کی جان سے کھیلنے والے،غفلت اور کم تجربہ کار ڈاکٹروں، پیسہ کے حوص ڈاکٹروں کی طرف دھیان دے وہ کس طرح علاج کرکے اپنے قومی فرض ادا کررہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔