خیبر پختونخوا کی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے اراکین قومی اسمبلی اور رہنماؤں کے خلاف شمالی وزیرستان میں خرقمر آرمی چیک پوسٹ حملہ کیس واپس لے لیا۔
ایبٹ آباد میں کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) بنوں میں ہوئی جہاں حج بابر علی خان نے حکومت کی کیس واپس لینے کی درخواست منظور کرلی۔
واضح رہے کہ 26 مئی 2019 کو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) بنوں ڈویژن کی جانب سے پی ٹی ایم کے ایم این اے محسن داوڑ ، علی وزیر اور دیگر رہنماؤں کے خلاف شمالی وزیرستان میں خرقمر میں ایک فوجی چوکی پر حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مذکور واقعے میں 14 افراد جان بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
علی وزیر اور محسن داوڑ اپنے حامیوں کے ہمراہ علاقے میں احتجاجی دھرنا میں حصہ لینے جارہے تھے کہ انہیں سیکیورٹی فورسز نے خرقمر چوکی کے قریب روکنے کیلئے فائرنگ کھول دی۔
16 مارچ کو خیبر پختونخوا کے محکمہ قانون نے انسداد دہشت گردی عدالت بنوں میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا کہ حکومت بنوں کے ضلعی پبلک پراسیکیوٹر اور اے ٹی سی بنوں کے سینئر سرکاری وکیل درخواست میں کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتی۔
آج اے ٹی سی بنوں جج بابر علی خان نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایبٹ آباد میں کیس کی سماعت کی اور حکومت کی درخواست قبول کرلی۔
اے ٹی سی بنوں کے سرکاری وکیل نواب زرین نے مذکور پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے درخواست منظور کرلی ہے۔
عدالت میں موجود ایک اور سینئر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ یہ مختصر سماعت تھی اور عدالت نے شکایت کنندہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ‘کیس واپس لیا گیا اور ملزمان کو بری کردیا گیا’۔
ایم این اے محسن داوڑ نے بھی اس پیشرفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کیس واپس لے لیا ہے۔
محسن داوڑ اور علی وزیر نے بھی عدالت میں درخواست دائر کی تھی ان کے خلاف اس مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
محسن داوڑ سمیت تمام افراد نے ایف آئی آر میں درج الزامات کی شروع ہی سے تردید کی اور اسے جھوٹا، جعلی اور سیاسی الزام تراشی سے منسوب کیا تھا۔