ٹک تیر کا فسانہ – فرید بلوچ

438

ٹک تیر کا فسانہ

تحریر: فرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اکتوبر کا مہینہ چل رہا تھا، آج میں اس شخص سے ملنے جارہا تھا جو پچھلے ایک مہینے سے مجھ سے رابطے میں تھا۔ جہاں ہم ضمیر و ایمان کی باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے جلد ملنا چاہ رہے تھے لیکن کچھ مصروفیات اور مجبوریاں تھیں جو ہمارے نزدیک آنے میں رکاوٹ بنی ہوئیں تھیں۔

لیکن آج کا دن میرے لیے بہت اہم تھا کیونکہ میں اپنے وطن ایک بہادر سپوت سے ملنے والا تھا، جس نے بہت جلد امر ہونا تھا جس نے بھگت سنگھ کی تاریخ دہرانی تھی دوپہر کا وقت تھا ایک نمبر سے مجھے میسج آیا ایک علاقائی ساتھی آپ کے انتظار میں ہے ان کے ساتھ آجائیں میں پہلی دفعہ اس ساتھی سے ملا تھا اور ایسے نسبت سے جس کی عظمت شاید لفظوں میں بیان نا ہوپائے۔

میں اور وہ ساتھی شہر سے دور ایک جگہ پر انتظار کرنے لگے کیونکہ آج ہم نے اس کردار سے ملنا جس نے تحریک کو ایک جہت بخشی تھی اتنے میں دور سے دو بندے ہمیں موٹرسائیکل پر آتے ہوئے نظر آئے دونوں جب ہمارے نزدیک پہنچے موٹر سائیکل سے اترے، دل تو کر رہا تھا دونوں کے قدم چوم کر ان کے پاؤں کے مٹی کو ماتھے پہ لگادوں لیکن پہلی ملاقات تھی ایسا ممکن ناہوسکا۔

سلام دعا کے بعد دوست نے تعارف کروایا ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک خواب دیکھ رہا ہوں، ایسے عظیم بندے سے ملاقات ہورہا ہے پھر کیا تھا دل جان نے جس کا فدا کے نام سے میرے ساتھ تعارف ہوا تھا جس کو ہر موضوع پر عبور حاصل تھا، جو آپ کے چہرے سے آپ کو پڑھکر آپ کے اندر اتر کر آپ میں سے آپ کو پڑھائے، تین سے چار گھنٹے ایسے گزر گئے کہ وقت کا پتہ ہی نا چلا۔

اس طرح ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اب ہم ہفتے میں ایک دفعہ ضرور ملا کرتے، جہاں دل جان ہمیں ہر نئے موضوع پر لے جاتے، جہاں ان کے باتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا اور ہمیں وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ہم تھے کہ بیٹھ کر صرف ان کا چہرہ دیکھتے جو اپنے دھیمے لہجے اور مسکراہٹ بھری باتوں کو ایسے سمجھاتے کہ دیہان اور کہیں نہیں جاتا اور ہم انہیں “سر” کہہ کر پکارتے کیونکہ زندگی کا اصل مقصد تو ہمیں انہوں نے ہی سکھایا کہ کسی مظلوم کے لیئے کیسے جیا جاتا ہے کیسے مشکلات کا سامنا کیا جاتاہے۔

مجھے انکا کہا ہوا ایک جملہ آج بھی یاد ہے
” یار دا تحریک ننے اسے گڑا اس تسونے کہ اسے نیاڑی اسے خَنن تو دا وجہ آن اونا کنڈا نظر بٹپنہ کہ دا بلوچ نیاڑی اسے”
میں اور میرا وہ جسے دلجان نے تحریک میں ایک ساتھ ملایا تھا وہ اور میں رات دیر تک میسج پر بات کرتے، سر نے جن موضوعات پر بات کیا ہوا ہوتا انہیں دہراتے اور میں نے سر کے حوالے سے اپنے دوست کو کہا سر ہمیں وہ تعلیم دے رہے جو میں نے چار دیواروں میں بند تعلیمی اداروں سے آج تک حاصل نہیں کیا.

اسی طرح ہماری سر سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، کبھی کوئی چیز بازار سے لیکر سر کو پہنچاتے تو کبھی سر ہمارے لیئے ٹائم نکال کر ہمیں کسی موضوع پر لیکچر دیتے، یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا تھا ہمیں بھی وقت کا پتہ نا چلا کہ پانچ مہینے کیسے چلے گئے۔

فروری کا مہینہ چل رہا تھا، صبح کے وقت جلدی اٹھنا ہوا کچھ سامان لیکر ہمیں انہیں پہنچانا تھا، سامان لیکر جب ہم پہنچے تو سر اور ایک اور سنگت ہمارا انتظار کر رہے تھے ان سے آخری ملاقات ہوئی اور وہ جلدی میں تھے انہیں جانا تھا۔

دو دن بعد شام کو جب ہم کہیں دوسری جگہ پر مصروف تھے، کچھ میسجز اور فون کالز آئے جنہیں ہم بد قسمتی سے اٹینڈ نہیں کرپائے اور جب شام کو ہم نے سنبھالا تو کہا گیا کہ ہمارے ساتھی بزدل فوج کے گھیرے میں ہیں ہم تگ ودو کرنے لگے کوئی خاص جنگی تجربہ نہ ہونے کے باوجود ہم تیاری مکمل کرکے قابض کے گھیراؤ کو توڑنے کے لیئے نکلے تھے، راستے میں ہمیں میسج ملا جنگ کا فیصلہ ہوگیا ہے” ٹک تیر” و “بارگ” نے سینکڑوں فوجیوں کو پسپا کردیا اور گولیاں ختم ہونے پر فلسفہ امیر جان کو دہرایا ہے۔

اف وہ کیا سما تھا کہ زمین ہمارے پیروں کے نیچے سے نکل گئی، ایک شفیق استاد سے ہم محروم ہوگئے لیکن خوشی یہ تھی کہ وہ سرخرو ہوگیا تاریخ پھر سے زندہ ہوگیا، بھگت سنگھ کی بہادری دہرائی گئی۔

وہ کیسا کٹھن وقت تھا جب ہم اس ہسپتال میں گئے جہاں دونوں بہادر سپوتوں کے جسد خاکی رکھے ہوئے تھے، دونوں کے حلق میں اتری ہوئی گولی گواہی دی رہی تھی دشمن کے بزدلی کی. گھنٹوں لڑی جانے والی لڑائی میں دشمن کا ایک گولی بھی انہیں چھو نہیں پایا تھا۔.

وہ رات کیا رات تھا، جس کا ایک پہر سکون سے نا گزرا، دل کا جلنا کسے کہتے ہیں اس رات احساس ہوا. ہمارے دلبروں کی لاشیں ہسپتال میں لاوارث پڑی ہوئی تھیں.

جنگ بے رحم ہوتا ہے، جس کیلئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہوتا ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، آج وہ سنگت جو ہمارے ساتھ نہیں لیکن انکی دی ہوئی تعلیماتِ ہمارے ساتھ ہیں، ہمیں ان کے کام کو آگے لیجانا ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔