وہ قرآن میں لکھے لفظوں کی طرح تھے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
سوال یہ اہم نہیں ہے کہ دھماکے سے ریلوں میں کھلے قرآن کے پہلے صفحے پھٹے یا ان معصوم وجودوں پر کپڑے جو وجود صبح سے قرآنی آیات پر جھول رہے تھے؟
یہ سوال بھی اہم نہیں ہے کہ اس زور دار دھماکے سے پہلے کھلے قرآن بند ہوئے
یا ان وجودوں کی آنکھیں جو قرآنی صفحات پر کھلی ہوئی تھیں؟
یہ سوال بھی اہم نہیں ہے کہ اس دھماکے سے اُٹھتی دھول پہلے قرآن کے ورقوں پر لگی یا ان وجودوں پر جن وجودوں کو زور دار دھماکے نے ریزہ ریزہ کر دیا ہے؟
سوال یہ بھی اہم نہیں کہ دھماکے میں کون جا کر کتنا دور گرا
معصوم ہاتھوں میں تھامیں قرآن؟
یا قرآن کی لے پہ جھومتے معصوم وجود؟
قرآن میں موجود صفحات یا قرآن کے الفاظ کو ادا کرتی چھوٹی سی پاکیزہ زبان؟
پر دونوں دور تھے
اور دونوں دھول آلود تھے
قرآن بھی
اور معصوم زبان بھی!
سوال یہ بھی اہم نہیں کہ اس دھماکے کی شدت زیادہ تھی یا بعد از دھماکے کے ان معصوموں کی چیخیں، زور دار تھیں جو چیخیں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیں!
سوال یہ بھی اہم نہیں کہ دھماکے کے بعد سروں پہ رکھی دستاریں اور سروں پہ موجود ٹوپیاں کیوں بدل گئیں؟
حمیر کی دستار فضل کے سر پہ تھی اور یاسر کی سفید ٹوپی خون آلود تھی
امین کا بازو صادق سے بغلگیر تھا اور صادق کی آنکھیں جنت میں جانے کے بعد بھی دنیا میں کھلی کی کھلی رہ گئیں؟
ہاں پر یہ سوال بھی اہم نہیں!
سوال یہ بھی اہم نہیں کہ اس کیس کو کون ہنڈل کریگا اور خیبر پختوں خواہ کا آئی جی ثناء اللہ عباسی اس کیس کے حوالے سے کیا کریگا؟
سوال یہ بھی اہم نہیں کہ اتنی خاموشی کے بعد یہ زلزلہ کیسا جس زلزلے میں معصوم بچوں پر آسمان آ گرا اور معصوم بچے تاروں میں بدل گئے اور ان کی جوتیاں یہی عرش ہی پہ رہ گئیں
مولا نے تو جبرائیل کو جوتوں سے آنے سے منع کیا تھا
بچے تو جوتوں پر بھی جنت اور عرش مولا پہ جا سکتے ہیں پھر یہ جوتے کیوں زمیں کی خاک چھان رہے ہیں ان جوتوں کے معصوم اور چھوٹے مالک تو جا چکے۔
کیا یہ جوتے زمیں پہ ماؤں کے دل جلانے کے واسطے رہ گئے ہیں
پر مائیں تو وہ گاڑیاں بھی نہیں جن گاڑیوں کی پشت پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ
”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!“
اور گاڑیوں کے سامنے معصوم بچوں کے معصوم جوتے ٹنگے ہو تے ہیں کہ گاڑی چلتی رہی۔
پر مائیں،مائیں ہیں مائیں گاڑیاں نہیں پر اگر ان معصوم جنتیوں کے جو تے بہت پیچھے رہ جانے والی ماؤں نے تبرکً اُٹھا بھی لیے اور اپنے گلے میں باندھ بھی لیے تو ان ماؤں کو کون رو کے گا
پر یہ سوال بھی اہم نہیں!
قرآن کی جلدوں سے کوئی تاج کمپنی کا کاروبا ری سیٹھ اور جلدیں بھی چھاپ لے گا اور کوئی دھوکے باز سیٹھ اپنی عاقبت سنوارنے کے واسطے اس کمپنی کو بہت سا پیسہ بھی دے دیگا اور پشاور کے دیہات میں کوئی اپنی پیٹ پر کوئی مسافر ان قرآنوں کے نسخوں کو لیے سستا بیچنے بھی آجائیگا دنیا بدل گئی ہے ہم جانتے ہیں وہ مسافر پیدل نہ ہوگا وہ اپنی قسطوں پر لی ہوئی موٹر سائیکل پر ہوگا
بیچ قرآن سچا قرآن رہا ہوگا اور قسمیں جھوٹی کھا رہا ہوگا!
پر یہ سوال بھی اہم نہیں
وہ بچے کہاں سے آئیں گے جو قرآن کے ورقوں جیسے تھے؟
کوئی ”طاحہ“تھا
کوئی ”یاسین“تھا
کوئی”مدثر“تھا
کوئی”مزمل“تھا
کوئی“عبدالحی“تھا
کوئی“قیوم“ تھا
کوئی آپ ہی قرآن تھا
کوئی آپ ہی منزل تھا
کوئی آپ ہی سورت تھا
کوئی آپ رکوع تھا
کوئی آپ ہی سجود تھا!
اب قرآن تو باقی رہ گیا ہے پر وہ قرآن کی جھولتی لے پر بچے نہیں!
ایسا نہیں ہے کہ پشاور میں آج ہونے والا دھماکہ بس ایک دھماکہ تھا
نہیں ایسا نہیں ہے وہ تین دھماکے تھے یک مشت تین دھماکے!
ایک اس مدرسے میں جس میں معصوم بچے مارے گئے
ایک اس قرآن میں جس میں لکھے الفاظ مارے گئے لکھی گواہیاں ماری گئیں۔
اور ایک ان ماؤں کے دلوں میں جن دلوں میں معصوم بچے بستے تھے
دھماکے کے بعد بچے دفنائے گئے،قرآن کے ورقوں کو سمیٹا گیا پر ان ماؤں کا کیا کرو گے جو اب ماتم بھی نہیں کر سکتیں؟
یہ سوال اہم ہے
یہ سوال اہم نہیں کہ ابPDM پشاور میں اپنا پاور شو کریگی کہ نہیں؟
پر ہم سوال یہ ہے کہ ان یتیم ماؤں کا کیا ہوگا جن ماؤں نے اپنے بچے گھروں میں روٹیاں نہ ہونے اور بچوں کو بھوک سے مرنے سے بچانے کے لیے مدرسوں کے حوالے کیا تھا اور اب وہ نہ بچے رہے ہیں اور نہ ہی ان کے بھوکے شکم
اک دھماکے نے سب جہانوں کو تہس نہس کر دیا
ہاں وہ بچے ان ماؤں کے جہان ہی تو تھے
اب مائیں یتیم ہوئی ہیں
ہاں ہم نے ان ماؤں کا یتیم ہو تے دیکھا ہے
یہ لازمی نہیں کہ بس بچے ہی یتیم ہوں پر جب فرشتوں جیسے معصوم بچے مارے جائیں تو مائیں پہلے دیوانیاں پر یتیم ہوجا تی ہیں
کل کابل کی ہزارہ مائیں یتیم ہو ئی تھیں
آج پشاور کی پختون مائیں یتیم ہوئیں ہیں
میں ان یتیم ماؤں کو کیسے اور کن الفاظ میں پروسہ دوں
ہیں کوئی الفاظ کسی کے پاس؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔