محبت کو،محبت سے دفن کر دو – محمد خان داؤد

264

محبت کو،محبت سے دفن کر دو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اب وہ سب دامن جلنے لگیں گے جو دامن ہاتھوں میں آکر جھولیاں بن جاتے تھے۔
اب ان دامنوں کو وہ آنسو بھی نہیں بجھا سکتے جو اس کے جانے پر آنکھوں سے رواں ہیں۔
وہ دامن جو،سفید پوش تھے پر اس کے لیے وہ دامن کشکول بھی بنے
اب وہ کشکول تو باقی رہیں گے پر وہ یار جا چکا جس نے اپنے دوستوں کو گدا گر بنا دیا تھا۔
اب سوال یہ نہیں ہے کہ دوست،دوستی میں گدا گر بنے یا وہ تھا ہی ایسا کہ دل نے آپ چاہا کہ کچھ نہیں کر سکتے تو فقیر تو بن سکتے ہو؟
فقیر بہت پیچھے رہ گئے قلندر جا چکا!
یہ سوال بھی اپنی جگہ رہے گا کہ محبت کیا کچھ کراسکتی ہے یا وہ تھا ہی ایسا کہ محبت بھی گداگر بن گئی؟
ہم نے دیکھا کہ اس کے لیے محبت بھی گدا گر بن چکی تھی
محبت کی بھی آنکھیں تھیں
وہ آنکھیں اشک بار تھیں
محبت کا بھی دامن تھا
وہ دامن جھولی بنا
اور جھولی کھنکتا کشکول!
جھوٹے وعدے بہت پیچھے رہ گئے
وہ ہواؤں کی مانند بہت آگے چلا گیا۔
نثار کے لیے ایک دو تو کیا پر پورا سندھ ہی دامن ِ یار میں بدل چکا تھا
کہیں سے سچل کی صدائیں آ رہی تھیں کہ
”میں تو کوئی خیال ہاں
ملساں نال خیال دے!“
کہیں سے لطیف کے میٹھے میٹھے
”ایندو ڈھولن سائیں،اللہ منھنجو ایندو ڈھولن سائیں!،،
کہیں سے سامی کے سلوک
”تم مر نہیں سکتے
تم تو دھرتی ہو،روز بہ روز وشال ہو تے جاؤ گے“
کہیں سے ایا ز کے بول کہ
”یار محبت کے لیے ہو تے ہیں
انہیں تنہا مت کرو!“

نثاربھلڑو محبت تھا اور سندھ نے اپنی آنکھیں نثار پر واہ کیے ہو ئے تھی،ہم نے دیکھا کہ سندھ کے صوفی دانشورو سے لیکر صوفی فنکاروں نے نثار کے لیے اپنے دامن کو جھولی بنا دیا تھا۔اور سندھ کی اس صوفی جھولی میں جو کچھ بھی دان ہو رہا تھا وہ نثار تک پہنچ رہا تھا پر ایسا نہ تھا کہ اس جھولی میں بس پیسوں،روپیوں،کڑکتے نوٹوں کی آوازیں،اور بہت سا چمکیلا سونا تھا نہیں ایسا نہ تھا۔

ان جھولیوں میں دعائیں تھیں،ان جھولیوں میں آہیں تھیں،ان جھولیوں میں سسکیاں تھیں،ان جھولیوں میں نثار کے معصوم بچیوں کی معصوم معصوم فکریں تھیں ان جھولیوں میں نثار کی محبوبہ کی اداس نظریں تھیں،ان جھولیوں میں نثار کی ماں کی جاگتی آنکھیں تھیں،ان جھولیوں میں ان دوستوں کی بے چینی تھی جو نثار کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے پر ان سے باجود کوشش سے کچھ نہ ہوتا تھا۔ان جھولیوں میں ایسی بے یقینی کیفیت تھی کہ ”اب نثار کا کیا ہوگا!“
ان جھولیوں میں بیدل مسرور کے گیت تھے،اب وہ تمام جھولیاں جل رہی ہیں۔

اب ان جھولیوں کو سندھو کا پانی بھی نہیں بجھا پائیگا
ان بجھتی،جلتی،جلتی بجھتی جھولیوں میں سب کچھ تھا سندھ کی فکر مندی سے لیکر صوفیوں کے گیتوں تک اگر نہ تھا تو سندھ کے حکمرانوں کا کوئی ازخود نوٹس،کوئی بیان،کوئی دلاسہ حتی کہ کوئی ٹوئیٹ بھی نہ تھا!
سندھ کے وہ حکمران جو کسی کے کتے کے گم ہوجانے یا اپنی دم پہ پیر آجانے یا کسی اسپتال میں کسی مے کی بوتل میں شہد کے نکل آنے یا کسی شہد کی بوتل میں مے کے مل جانے پر ٹوئیٹ کرتے ہیں اور ہمارا بے شرم قومی میڈیا فوراً ان ٹوئیوٹوں کی برسات کو روائیتی میڈیا کی زینت بنانے میں دیر ہی نہیں کرتے!
وہاں نثار بھلڑو سندھو کے پانی کی طرح
سندھ کے دامن کی طرح
کارونجھر کی کور کی طرح
تھر کی دلکش زروں کی طرح
آہستہ،آہستہ،آہستہ ختم ہو رہا تھا اور ختم ہی ہو گیا پر کہیں سے کوئی دلاسے جیسا ٹوئیٹ بھی ظاہر نہ ہوا
سندھ کی سیاست پر قبضہ گیرروائیتی پیر،میر،جام،جاموٹ،پگاروں،کی باقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں وہ جو جرگہ پر پل رہے ہیں میں ان کی یہاں کوئی بات نہیں کر رہا۔
میں یہاں ان جدید سیاسی اکابرین کی بات کر رہا ہوں جو کسی میڈیا کے محتاج نہیں پر اب میڈیا ان کے پوسٹوں اور ٹوئیٹوں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے،ان جدید پڑھے لکھے سیا سی لیڈروں نے بھی دئیے کی طرح جلتے،موم کی طرح بجھتے نثار بھلڑو کی یوں جل جانے اور یوں بجھ جانے پر کوئی سندھ،نثار کی محبوبہ اور نثار کی ماں کو کوئی دلا سہ نہ دیا
اور دئیا بجھ گیا۔

مجھے نہیں معلوم کے سندھ سرکار کو نثار بھلڑو کی بیما ری کا علم بھی تھا کہ نہیں
میرے خیال میں سندھ سرکار کو نثار بھلڑو کی بیما ری کا علم ہونا چاہیے تھا کیوں کہ سندھ سرکار میں گدھ بیٹھے ہیں اور ان وہ گدھ اسی انتظار میں ہو تے ہیں کہ سندھ کا ان پر کہیں سے کوئی زور پڑے اور وہ اس زور کو کیش کر لیں نثار بھلڑو کے کیس کا بھی ان گدھوں کو اندازہ رہا ہوگا زوربھی پڑا ہوگا۔

اب جن نثار نہیں رہا تو سب سمریاں بھی منظور ہوں گی اور سرکا ری فائلوں میں نثار بھلڑو نامی سماجی کارکن کا کیس بھی ہوگا اس فائل پر وزیر اعلیٰ کو سمری بھی ارسال کی جائیگی وہ سمری منظور بھی ہوگی اور اس کیس پر لاکھوں روپئے خرچ بھی کیے ہوں گے پر ہم جانتے ہیں کہ محبت جا چکی!
نثار بھلڑو بس محبت تھا نہ سمجھ میں آنے والی محبت!
دیر پا رہ جانے والی محبت!
محبت میں لگے دامنوں کو رنگنے والی محبت!
خاموش محبت!
کارونجھر کے کور جیسی محبت!
موئن جو دڑو کے رقص جیسی محبت!
اس محبت کو یہ سرکار اپنے فائلوں میں کیسے سنبھال سکتی تھی؟
اس محبت کو یا تو صوفیوں نے گیتوں میں سنبھالا
یا تو سندھ کے پاگل انسانوں نے اپنی جھولیاں پھیلا کر سنبھالا
یا تو اب سندھ کا وہ کچا دامن سبھالے گا جس دامن میں وہ محبت دفن کر د جائیگی!
بلاول زرداری کا سندھ نہیں
لطیف کا سندھ کہہ رہا ہے
اس کے لیے مت رو
وہ صوفی تھا اور جا چکا
اس کی محبت کی بجتی ٹلیاں کبھی خاموش نہیں ہونگی
سندھ کہہ رہا ہے
”وہ محبت تھا،اسے محبت سے دفن کردو
اور نثار بھلڑو کے کیس کی فائل مراد علی شاہ اور بلاول زرداری کے منھ پر اتنے زور سے مارو
کہ ان کے پاس آس پاس بیٹھے گدھ اُڑنے لگیں!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔