لاپتہ افراد کے لواحقین کے نام – شائستہ گوادری

181

لاپتہ افراد کے لواحقین کے نام

تحریر: شائستہ گوادری

دی بلوچستان پوسٹ

دوپہر کی تپتی دھوپ ہو یا سردیوں کی ٹھنڈی ہوائیں،
یہ لوگ جو اپنے بھوک و پیاس بھول کر ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصویر لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں اپنے پیاروں کے واپسی کے منتظر ہیں ۔ان میں نوجوان لڑکے ، لڑکیاں،بزرگ مرد و خواتین حتیٰ کہ کمسن بچّے بھی شامل ہیں ۔
ان کی بے بسی و لاچاری ان کے چہروں سے صاف جھلکتی ہے ، ان کے غمگین چہرے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ کتنی تکلیف میں مبتلا ہیں ۔

کوئی اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہے، تو کوئی اپنے بھائی کو ڈھونڈ رہی ہے ۔ کوئی اپنے باپ کو تلاش کر رہی ہے تو کوئی اپنے شوہر کا منتظر ہے۔
مگر افسوس کہ ان مظلوموں کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ۔
ان کی دکھ بھری کہانی اور آہ و فریاد سن کر ان کو تسلی دینے والا کوئی نہیں۔

یہ کس قدر کرب میں مبتلا ہیں جو یہ تک نہیں جانتے کہ ان کے پیارے کس حال میں ہیں ۔
ان کی بے بسی و لاچاری کو صرف وہ انسان محسوس کر سکتا ہے جو خود ان دردوتکالیف سے گذرا ہے ۔ان کی دکھ بھری کہانیوں کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن کے برابر ہے ۔لفظ ہی کم پڑ جائیں گے ان کی بے بسی کو بیان کرنے کے لیے ۔

مگر ان مظلوموں کے غمگین چہرے ، نہ تھمنے والے آنسو اور انصاف کے لیے بلند کی گئی صدائیں ابھی تک ظالموں کے دلوں میں رحم پیدا کرنے اور ان کے ضمیر کو جگانے میں ناکام ہیں ۔

“یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان مظلوموں کا ساتھ دیں اور ان کی حق اور انصاف کے لیے بلند کی گئی صداوں میں اپنی آواز بھی شامل کر لیں تاکہ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ کل ان مظلوموں کی فہرست میں آپ کا خاندان بھی شامل ہو اور آپ کا پیارا ٹارچر سیل میں انسانیت سوز سزائیں سہہ رہا ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔