دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں
گوادر جب بھی جائیں وقت کی کمی کا احساس ہوتا جاتا ہے۔ ہمیں پندرہ سال پرانا گوادر، سمندر، اور جیٹی دیکھنا تھا۔ ایک کار موٹر، دو کار موٹریں، تین………… ہم بھیڑوں والے ریوڑ کی طرح ایک ایک کرکے سب جیٹی پہنچے۔ ارے یہ تو وہی دیکھا بھالا علاقہ تھا۔ البتہ اب اُس کی وہ اہمیت نہ رہی تھی۔ جیٹی آج دو شادیوں والے خاوند کی پہلی بوڑھی بیوی نظر آرہی تھی۔ لائن میں گھونٹیوں سے بندھی کشتیاں، نیلام ہال میں بکتی ہوئی مچھلیاں، محنت کش میدو ماہی گیر۔ ………… مگر دیواروں پہ چینیوں کا نہ کوئی بکواس فقرہ تھا، نہ یہاں کوئی سپاہ و چوکیدار موجود تھا۔ لہٰذا ہم ذہنی اور بدنی دونوں اعتبار سے کھلے ڈلے عام سے انسان تھے۔
بھوک لگی ہوئی تھی اور سعدیہ بلوچ نے نہ صرف مچھلی خریدنے کی فرمائش کی بلکہ اس کو خود پکانے کا انتظام کرنے کا حکم بھی دیا۔ ایسی صورت میں ہمارے حسن مولانغ، یعنی جیئند خانِ المست نے جبلی سرعت کے ساتھ اپنا بٹوہ نکالا۔ مجھے لگا کہ اگر کچھ اور کی فرمائش بھی ہوئی تو آج نوشکی کے قریب اُس کے آبائی علاقہ یعنی بٹو میں اُس کے خاندان کی زمین کا تیسرا حصہ، گوادریوں کے ہاں رہن ہوجائے گا۔ ”جی، جی“ میرے اس حبیب کا تکیہ کلام بن چکا تھا۔ اتنے جی تو اگلی کو اُس کی مکہ ماں نے بھی نہ دی تھیں!!
ہم مچھلی سے لدے پھندے جیئند خان کی ڈرائیوری اور بجارو گلزارو رفیق و عابدو ثاقب و ضیا کے ساتھ، چاکری گھڑ سواروں کی تیزی تندی میں وسعت یافتہ گوادر کی گلیاں چومتے بجار کے بن فیملی گھر پہنچے۔ ہم تو بیٹھے پنکھے کے نیچے، اور باقی احباب سعدیہ کی ہیڈ ماسٹری میں باورچی خانے میں۔ آج بھوک(؟) کے ہاتھوں ہمل جیئند کے سارے بچے، باورچی بن چکے تھے۔ بڑھ بڑھ کے برتن مانجھ رہے تھے، پیاز کے ساتھ آنکھیں دھور ہے تھے، منمنا رہے تھے، گنگنا رہے تھے………… مجھے بلوچی ادب میں کردار نگار گورکی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔
ہم نے برنج میں ماہی، یا ماہی میں برنج والی ڈش پہ ہاتھ صاف کیے۔ ہمیں فیوڈل ازم کے غلیظ جوہڑ میں پرورش یافتہ پیاسے اور محرومیت زدہ نوجوان دلوں کے احترام میں آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ نیچے کرنے میں عافیت اور سکون محسوس ہورہا تھا۔
ہم نے خوب کھایا اور تھال خالی کردیے۔ ہم کسی بھی طرح بیورغ نہ تھے اور ہمارے ساتھ کوئی شاہی مالِ غنیمت نہ تھا۔ لہٰذا ہم نے اگلے کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی خاطر نہ غالی کے نیچے کھانا پھینک کر تھال خالی کیے، اور نہ دریچوں سے باہر اچھال کر میزبان کو پیٹ بھر کر کھا چکنے کا یقین دلایا۔ اس لیے کہ ہم گراں ناز لے اڑے تھے اور نہ یہ گھر گوہرام لاشاری کا عطا کردہ اوطاق تھا۔
شام کا مشاعرہ بھی سکالر، اے آر داد ہی کنڈکٹ کررہا تھا۔ سیاحت میں سربراہ اچھا ہو تو مناظر تو مزید حسین ہوں گے ہی۔ اور یہاں تو شاعر نہیں شاہِ یار موجود تھے۔ لفظ اور لے کا مالک منیر مومن تھا، قافیہ ردیف سے محبت کرنے والی شہناز نور تھی۔حروف و ہجہ اور زیر و زبر کا ہیڈ ماسٹر علی عیسیٰ تھا، شعور و شاعری کو سنگم عطا کرنے والے عمران ثاقب اور بہادر علی گوہر تھے، سحر و شعروحسن و ادائیگی کی ھداوند نوشین قمبرانی تھی، توصیف چین شاعر زبیر مختار اور وحید نور تھے، محبت کی خفیہ گیری کو ڈانگ مارنے اور اسے طشت از کوہِ باثیل کرنے والی بہت اچھی شاعرہ سعدیہ بلوچ تھی، شعر کے فن سے آشنا کے بی فراق، ظہیر ظرف، آصف شفیق، عبداللہ عابد، ضیا شفیع، پھلان عمر، مجیب مجاہد، ڈاکٹر عظمیٰ قادری………… کتنوں کا نام لوں۔ اور کس ترتیب سے لوں کہ فیوڈل ازم کے پروردہ ذہنوں نے شاعروں کو ”پہلے اور بعد میں“ پڑھانے کے معاملے کو بھی ”جنگِ گوخ پروش“ بنا رکھا ہے۔
اس مشاعرے میں خوب صورت بلوچی اور اردو دونوں زبانیں شامل تھیں۔ یہ ایک ”مہذب ترین مشاعرہ“ اس لیے تھا کہ اس میں ہال کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ وا ہ واہ، مکرر وغیرہ سب اوپر سٹیج پر شاعر خود آپس میں بانٹ رہے تھے۔ بلوچ معاشرے میں مشاعرہ تو ابھی حال میں در آیا ہے۔ اس لیے واہ واہ اور مکرر اتنا زیادہ مقبول نہیں ہیں۔
جس بات کا دکھ ہوا وہ یہ ہے کہ ہماری اپنی اصناف میں ایک مصرع تک نہ کہا گیا تھا۔ ہم گوادر کے لوگوں سے تحریری شکایت کررہے ہیں، کہ وہی ہمارے مستقبل کا ایک اہم ثقافتی مرکز ہیں۔ اُنہیں ہی احیائے نو کرنا ہوگا بلوچی کی اپنی اصناف میں شاعری کرنے کا، شاعری کرانے کا۔ لیلڑی، ڈیہی، دستانغ، زہیرونک، لیلی مور، لیکو………… ہم ایک گلستان رکھتے ہیں اصناف کا!!۔
لیاری کی پروین بے شمار انسانی دکھ (ذاتی، خاندانی، معاشرتی) اپنے سینے میں بھگت اور رکھ کر انسانوں کی بہبود کے لیے کام کرتی رہتی ہے۔ ایک ہاتھ میں کئی خربوز لیے ہانپ کانپ کام میں جتی رہتی ہے۔ وہ تو خود بھی بہت اچھی بیٹی ہے، اُس پہ یہ کہ وہ نور محمد شیخ کے لیاری کی ہے، لعل بخش رند کے لیاری کی ہے۔ بلند قامت انسانوں کے علاقے میں پیدا ہونا ہی بلند توقعات وابستہ کرا دیتا ہے۔ ………… وہ اس بار نوجوانوں کا ایک ڈرامہ گروپ لیاری سے ساتھ لائی تھی۔ باصلاحیت نو عمر بلوچ ڈرامہ آرٹسٹس۔ عورت کے مسائل و حقوق پہ مبنی اُن کا پیش کردہ ڈرامہ بلوچ معاشرے بالخصوص کراچی کے بلوچ معاشرے کا خوب عکاس تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔