بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان میں دہائیوں سے جاری انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف متحرک انسانی حقوق کے کارکن طبیہ بلوچ کے والد حنیف چمروک کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حنیف چمروک کا قتل بلوچستان میں سنگین انسانی حقوق کے خلاف جاری سرگرمیوں میں متحرک سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان کو خاموش کرنے کی پرانی منصوبہ کا نیا تسلسل ہے۔ بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری ریاستی ناانصافیوں اور قتل و غارت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں اور حنیف چمروک کا قتل بھی انہی سازشوں کا شاخسانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں اجتماعی سزا کے طور پر بلوچستان کے طول و عرض میں ہمیشہ ایسے واقعات رونماء ہوئے ہیں۔ متحرک سیاسی کارکنان اور قومی جہدکاروں کو خاموش کرانے کی کوشش میں ریاست نے ہمیشہ ان کے خاندان والوں کو نشانہ بنایا ہے۔ بلوچستان میں اس سے پہلے بھی ایسے درجنوں واقعات میں سیاسی و انسانی حقوق کے متحرک کارکنان کو خاموش کرانے کیلئے ایسے ہتکھنڈے استعمال ہوئے ہیں جن میں آئے روز شدت دیکھی جارہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست ہر طرح کی جبر کا مرتکب ہو رہی ہے لیکن ان تمام جرائم اور انسانی حقوق کے خلاف سنگین کارروائیوں کو روکنے کیلئے دنیا کی تمام جمہوری ریاستیں اور انسانی حقوق کے کارکنان ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ دنیا کے خاموشی کی وجہ سے آئے روز ریاستی ظلم و جبر میں شدت لائی جارہی ہے اور بلوچستان ایک مقتل گاہ کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے یہاں بسنے والے تمام افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ حنیف چمروک کا قتل سیاسی و انسانی حقوق کے متحرک کارکنان کو خاموش کرانے کی ایک نئی منصوبہ بندی کا آغاز ہے۔
انہوں کہا کہ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر کے انسانی و جمہوری اداروں نے بلوچستان میں جاری سنگین جرائم پر خاموشی کا روزہ نہیں توڑا تو بلوچستان میں جلد ہی بلوچستان میں انسانی بحران کا ایک فیز شروع ہوگا۔