جی ہاں طیبہ مجرم ہے
تحریر: شے حق بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کبھی کبھی ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہم اس دنیا کے باسی نہیں ، یہ دنیا جو خود کو انسانی دنیا سمجھتی ہے ،ہم اس کا حصہ نہیں ،کبھی کبھی ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہم زندہ ہی نہیں ، یا ایسا بھی لگتا ہے کہ ہم انسان ہی نہیں- اگر ہم اس دنیا کے باسی ہیں، اور اگر ہم انسان اور زندہ ہیں تو آخر کیوں ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ کیوں ہمیں ہر روز مارا جاتا ہے؟ تو پھر کیوں ہمیں ہر روز لاپتہ کیا جاتا ہے ؟ تو پھر کیوں ہمیں زندہ درگور کیا جاتا ہے ؟ تو پھر کیوں ہماری ماوں اور بہنوں کو کنسنٹریشن کیمپوں میں ڈال دیا جاتا ہے ؟ آخر ہم نے کونسی ایسی خطا کی ہے جس کا ہمیں یہ سزا دیا جارہا ہے- اور ناجانے کب تک ہماری تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا رے گا ؟اور ہم خاموش چُپ چاپ اس ظلم و جبر کو برداشت کرتے رہینگے ، آخر کب تک ہم اس ڈر اور خوف کے ساتھ زندگی گزارتے رہینگے؟
طیبہ بلوچ کو کس چیز کی سزا مل رہی ہے؟ ایسی کونسی گناہ اس نے کی ہے جسکی انتی بڑی قیمت وہ چُکا ری ہے ؟ اس کے والد کو دن دہاڑے ،گھر کے سامنے قتل کیا گیا ، اس کے پیروں تلے زمین چھین لی گئی، اُس کو دھمکایا گیا ، ڈاریا گیا آخر کس لیئے؟
یہ تمام سوالات میرے ذہن میں گونج رے ہیں اور انکا تسلی بخش جواب مجھے نہیں مل پا رہا ، میں ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہا – جب سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کوئی خوف میرے سوچ کی پہرے داری کر رہی ہے ، ایسا گمان ہوتا ہے میرے سوچ پر تالا لگا ہوا ہے ، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی ہے ، میں دیکھ نہیں پا رہا ، میں سُن نہیں پا رہا ، مجھے طیبہ سمیت تمام بلوچوں کی فریاد نہیں سُنائی دے رہی ، مجھے ریاست کے خون آلودہ ہاتھ نہیں دکھائی دے رہی- مجھ تک عقوبت خانوں میں بند نیم زندہ حالت میں پڑے اپنے بھائیوں کی چیخ و پکار نہیں پہنچ پارہی- میں اس سماج کا حصہ نہیں ،شاید میں نے اپنوں سے کنارہ کشی کی ہے ، شاید میں انکا کچھ بھی نہیں یا شاید وہ میرے کچھ بھی نہیں ہیں۔
کیا حنیف چمروک کا جرم یہی تھا کہ وہ طیبہ کا والد تھا؟ کیا اس لیے اسے بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا؟ کیا طیبہ نے ایسا گناہ کیا تھا کہ جس کی سزا یہ ملی اسکو؟ ایک بیٹی جس کو اپنے ابا کا قاتل ہونے کا لقب ملا۔ کیا ہم اور ہماری یہ خاموشی طیبہ کے ابا کا قاتل نہیں ہے؟ کیا ہمارا یہ خود ساختہ ڈر طیبہ کے ابا کا قاتل نہیں ہے؟
ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ طیبہ نے ایسا کیا، کیا جس کی بنا پہ اسکے والد کو قتل کردیا گیا؟ طیبہ نے انسانی حقوق کے لے آواز بلند کی ، طیبہ نے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی ، طیبہ نے اپنے اندر کے انسان کی آواز سُنی ، طیبہ نے زندہ رہنے کا فیصلہ لیا، طیبہ نے ان بلوچ بچوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو سالوں سے اپنے احباب کی فوٹو لیے دربدر کی ٹھوکرے کھا رے ہیں، طیبہ نے ان ماوں کے لیے آواز بلند کرنے کا فیصلہ لیا جنہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے بیٹوں کی راہ تکتے تکتے گزار دی، طیبہ نے ان عورتوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ لیا جن کو ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ وہ بیواہ ہیں یا شادی شدہ ، میرے خیال سے طیبہ واقعی ایک مجرم ہے ، جس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ، جو خاموش رہنا نہیں سیکھ پائی ، جس نے اپنوں کو اپنا سمجھا ، جس نے اپنے پیاروں کی آزادی کی بات کی ، طیبہ کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ اس نے انسانیت کے لے آواز اٹھایا-
جی ہاں! طیبہ مجرم ہے اور طیبہ کو اس جرم کی سزا بھی مل گئی- جی ہاں طیبہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے ابا کا قاتل ہمارے سماج میں بہت خوشحال زندگی گزارے گا ، حنیف چمروک کو باقی تمام بلوچوں کی طرح بھلا دیا جاے گا ، اور ہزاروں بلوچ اسی طرح قتل کیے جائینگے ، روزمرہ کی طرح نظامِ زندگی چلتا رے گا ، مگر طیبہ اپنی بہنوں کے ساتھ روز گھر کے سامنے اپنے ابا کا راہ تکتی رہےگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔