جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی جرمنی کے زیر اہتمام بلوچ صحافی، آرٹسٹ اور اینکر پرسن شاہینہ شاہین بلوچ، حنیف چمروک سمیت بلوچ خواتین کی قتل کے خلاف جرمنی کے شہر ڈسلڈورپ میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے میں بلوچ سیاسی کارکنان سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد نے بھی شرکت کی اور شاہینہ شاھین ،حنیف چمروک سمیت بلوچ خواتین کی بہیمانہ قتل کی سخت مذمت کی۔
مظاہرین کی جانب سے بلوچ خاتون صحافی شاہینہ شاہین کے قتل کو ریاستی عزائم کا شاخسانہ قرار دیکر اسے بلوچ خواتین کی سماجی و سیاسی ترقی سمیت بلوچ آرٹس کا راستہ روکنے کا حربہ قرار دیکر کہا گیا کہ “پاکستان اور اس کے زیرسایہ پلنے والی وہ قوتیں جو بلوچ سماج میں ایک خوف کا ماحول پیدا کرکے بلوچ سماج کو مذہبی جنونیت اور انتہاء پسندی کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔”
مظاہرین نے مزید کہا کہ “شاہینہ شاہین، بلوچ خواتین کو فن اور آرٹس کی جانب لانا چاہتی تھیں اور وہ بلوچ خواتین کی خودمختاری اور آگے آنے کے قائل تھیں اس سلسلے میں انہوں نے کئی ورکشاپ بھی کئے تھے اور مختلف پروجیکٹس پر ان کے کام جاری تھے، وہ بلوچ خواتین کو لکھنے کی بھی ترغیب دیتی تھی۔ دزگہار”میگزین اس حوصلہ مند سلسلے کی ایک کڑی تھی۔”
مظاہرین نے اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمیشن سمیت عالمی عدالت انصاف سے یہ اپیل کی کہ وہ “پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بلوچستان میں بلوچ قوم پر ظلم و جبر کا سلسلہ ختم کرے ۔”جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی جرمنی کے ترجمان نے یہ کہا کہ شاہینہ شاہین کے خاندان سمیت ان تمام خاندانوں کو جن کے پیارے ریاستی جبر کے شکار ہوئے ان کو انصاف دلانے کی خاطر یورپ میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ وسیع کیا جائے گا ۔