تم لوٹو گے تو آسماں سیاہ ہوگا – محمد خان داؤد

183

تم لوٹو گے تو آسماں سیاہ ہوگا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

انہیں بلوچستان کے دردوں کا درد نہیں، انہیں اپنے مفادوں کا درد ہے۔ کوئی سرکار میں شامل ہوجاتا ہے، کراچی سے لیکر دبئی تک شاپنگ کرتا پھرتا ہے اور کوئی محض اس بات پر راضی ہو جاتا ہے کہ اسے بھی سرکار کے لولی پوپ کا مزا چکھایا جائے پھر اس کی مدعت کچھ سال ہی کیوں نہ ہو۔
ان میں اتنی بھی حیا نہیں کہ جب یہ سیاہ بلوچستان کے سیاہ آسماں کے نیچے رہتے ہیں جب تو اداس نظر آئیں پر وہ ایسا بھی نہیں کرتے، یہ تو اپنے گھر کی کھڑکیوں سے بلوچستان کا سیاہ آسماں دیکھتے تک نہیں اس سے بھی بڑھ کر یہ تو بلوچستان کی سنگلاخ دھرتی کے سیاہ آسماں کے نیچے رہتے ہی نہیں یہ بلوچستان کی حدود میں جب داخل ہو تے ہیں جب کسی اور سردار کی دستارِ فضیلت ہو تی ہے۔ جب کسی اہم انساں کو دھرتی میں دفن کرنا ہوتا ہے یا اپنے کسی کمدار، کسی چہیتے کی رسم ِ حنا ہوتی ہے یا ان مسکین بلوچوں سے ووٹ لینا ہوتا ہے جس ووٹ کی بنیاد پر ماں کے بعد کوئی باپ پارٹی بن جا تی ہے اور قدوس جیسا بھی تین سو ووٹ لیکر اسمبیلی کا ممبر بن جاتا ہے اور بہت پیچھے ضیاء لانگو سب کو دھمکاتا رہتا ہے
اس کے سوا سیاہ آسماں کے نیچے رہتا کون ہے؟
اختر مینگل؟
ڈاکٹر مالک؟
جمالی؟
یا وہ جو کراچی سے لیکر اسلام آباد میں جینز اور شرٹ میں نظر آتے ہیں اور بلوچستان پہنچ کر کلچر کے داعی بن کر بڑی بڑی شلواریں پہن لیتے ہیں
وہ بلوچستان کے دردوں، دکھوں اور بلوچستان کے سیاہ آسماں سے دور بھاگتے ہیں
مسکین بلوچوں سے ووٹ لیتے ہیں، سینٹ سے لیکر قومی اسمیبلیوں میں منتخب ہو تے ہیں پھر وہاں لوٹ کر نہیں جاتے،
جہاں زمیں سرخُ اور آسماں سیاہ ہے
پانی خون آلودہ
اور دھرتی مسخ شدہ لاشیں جنتی ہے
جہاں پہاڑ گمشدگیوں کے آئی وٹنس ہیں
جہاں پہاڑوں کے نیچے پھول نہیں کھلتے جہاں پہاڑوں کے نیچے بوڑھے بابا جوان بچوں کو دفن کر دیتے ہیں کسی درد کی مانند
جہاں ہوائیں اداس ہیں
جہاں جینے کی روشنی نہیں
جہاں مائیں مسافر اور بہنیں صدمے سہہ رہی ہیں
جہاں معصوم بچیاں بن باباؤں کے ہی جوان ہوگئی ہیں
جہاں ان بچیوں کی کوئی منزل نہیں پر سفر ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا
جہاں سرکار ی وزراء کے بھاشن ہیں! بھاشن ہیں!بس بھاشن ہیں!
اور ماؤں، بہنوں، محبوباؤں اور بیٹیوں کے اداس چہرے!
جہاں چاند گرہن زدہ ہے
جہاں سورج سیاہ ہو چکا ہے
جہاں پورا آسماں سیاہ ہو چکا ہے
جہاں دھرتی نا چاہتے ہو ئے بھی جوان بچے اپنے سینے میں امانتاً دفن کردیتی ہے۔
وہاں کون لوٹے گا؟ اور کیوں لوٹے گا؟
جہاں مائیں اپنوں کا پتا معلوم کرتی ہیں، جہاں بیٹیاں باباؤں کے نہ ہونے پر ذہنی مریض بن چکی ہیں
اور جہاں پر بھونکتی بندوقیں جب چاہیں اور جہاں چاہیں بھونکیں اور کسی کو بھی کاٹ لیں
وہاں کون لوٹے گا اور کیوں لوٹے گا؟
اختر مینگل سے لیکر ڈاکٹر مالک تک سب کراچی میں بستے ہیں، اور اب اس کھیل کا حصہ ہیں جو کھیل پہلے آسماں پر فرشتوں نے سجایا ہے اور یہ فرشتے چاہتے ہیں کہ بہت ہوگیا ہے جیسے تیسے یہ مانے خاں یہاں سے جائے تو ان فرشتوں نے بساط بچھائی ہے جس بساط پر بلوچستان کے سیا سی گھوڑے بھی رکھے ہوئے ہیں
پر اس دیس کا کیا ہوگا جس دیس کا دکھوں کی وجہ سے آسماں بھی سیاہ ہو چکا ہے!
جس دیس میں ان بیٹیوں کے باباؤں کو اس لیے قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ بیٹیاں سچ کے ساتھ ہیں
جس دیس میں انساں تو انساں پر خوابوں کا بھی قتل کر دیا جاتا ہے
اور حیات کون تھا
بس ایک خواب
بس ایک خیال
ماں کا خواب
اور بوڑھے مزدور بابا کا خیال!
سچل کی صدا
”میں تے کوئی خیال ہاں
ملساں نال خیال دے!“
بے قابو بندوقیں بھونکی اور کچھ باقی نا بچا
کیا وہاں اختر مینگل،ثناء بلوچ،ڈاکٹر مالک اور جہانزیب جمال دینی گئے؟
حنیف چمروک کون تھا؟ اور طیبہ بلوچ کون ہے؟
خواب، خیال اور سچ
جس کے لیے سچل نے فرمایا تھا کہ
”سچ،سونھن ء تون
مور نہ وسرن مون!“
”سچ،حُسن اور تو
مجھے کبھی نہ بھولے گئے!“
کیا وہاں گئے ڈاکٹر مالک، اختر مینگل اور جہانزیب جمالدینی؟
اور کراچی سے لیکر کوئٹہ تک جو ایک حشر بپا ہے جو نہ ختم ہونے والا درد بچھا ہے
کیا وہاں جا تے ہیں یہ ہمارے عمائیدین؟
نہیں!کیوں کہ وہاں کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں سوائے سیاہ آسماں کے!
وہاں تو کچھ بھی نہیں
کچھ بھی نہیں سوائے دردوں کے اور درد بھرے دلوں کے
”رات کے ہاتھ میں اک کاسۂ دریوازہ گری
یہ چمکتے ہوئے تارے یہ دمکتا ہوا چاند
بھیک کے نوُر میں مانگے کے اُجالے میں مگن
یہی ملبوسِ عروسی ہے،یہی ان کا کفن
اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوئے جسموں کی کراہ
وہ عزازیل کے کتوں کی کمیں گاہ
وہ تہذیب کے زخم
خندقیں
باڑھ کے تار
باڑھ کے تاروں میں اُلجھے ہوئے انسانوں کے جسم
اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوئے گدھ
وہ تڑختے ہوئے سر
میتیں ہاتھ کٹی پاؤں کٹی
لاش کے ڈھانچے کے اس پار سے اس پار تلک
سرد ہوا
نوحہ ونالہ وفریاد کُناں
شب کے سناٹے میں رونے کی صدا
کبھی بچوں کی کبھی ماؤں کی
چاند کے تاروں کے ماتم کی صدا
رات کے ماتھے پہ آرزو دہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں!“
اے بلوچستان کے سیاسی اکابریں جب اس دھرتی پہ لوٹوں گے تو
سیاہ آسماں کے سوا کچھ نہ ہوگا
سیاہ آسماں کے سوا کچھ نہ ہوگا!!
ماؤں کے ماتم سے خورشید بے نور ہوئے ہیں
چاند گرہن زدہ
اور سورج اندھا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔