تاریخ کے اوراق اور ڈیرہ اسماعیل خان
تحریر: آفتاب محسود
دی بلوچستان پوسٹ
لاک ڈاؤن کی چھٹیوں میں گھر پر کافی تنگ رہا پر بے شمار ایسے حالات و واقعات سے دو چار رہا جوبعد میں نت نئے تجربے یا افسانے گردانے گئے ۔رومی فرماتے ہیں محبت کے راستے کو اختیار کر کے آپ ان گلیوں سے بھی گزرتے ہیں جن سے آپ پہلے کبھی نہیں گزر پائے ۔کچھ اسی طرح معاملہ اس بندہ نا چیز کے ساتھ بھی ہوا کہ محلے کے چند عظیم لفنگوں سے متعارف ہونے کا موقع ملا ۔ایک آدمی ملا جو بظاہر تو اک آدمی ہی تھا پر میں نے اسے لیبارٹری جانا ،مانا اور کہا۔لیبارٹری کیوں ؟کیونکہ بقول انکے جو بھی ان سے ملتا ہے وہ مستقبل میں اسے جانیگا ،پہچانیگا ،بلائیگا ،کھلائیگا اور پلائیگا ۔
اک دن انہیں دیکھ کر کچھ سنجیدہ سوالات پوچھنے کو جی چاہا۔مجھے لگتا ہے یعنی لگنے لگا ہے کہ آدمی کی سنجیدگی ناپنے یا دیکھنے کے لئے اس سے اس کے ماضی کے بارے میں پوچھا جائے ۔سوچا اور یہی کر کہ دیکھا تو عجیب و غریب قصے کہانیاں ابھرنے کو ملیں جس میں اک بات نے میرا دماغ کھینچا، جو آج کل کے معاشرے کے ساتھ کافی مشابہت رکھتے پائی گئی۔دراصل اسی بات کو لے کر میں نے اس مضمون کو انشایہ یا اداریہ بنانا چاہا ۔
“میں سپاہ صحابہ میں کام کرتا تھا ” کی بات سے موضوع کو تول دیا گیا، امپورٹ ایکسپورٹ قسم کے اس آدمی نے وہ پوشیدہ نقطہ بیان کیا جس کو مجھ سے زیادہ آپ لوگ سن و جان کر حیران ہونگے ۔کہنے لگے ہم ڈیرہ اسماعیل خان میں خلیفہ عبدالقیوم کی زیرنگرانی میں کام تمام کیا کرتے تھے ۔ان دنوں بستیوں کو شیعہ سنی فساد نے ایسا آ گھیرا تھا جس کی مثالیں اب تک ملتی آ رہی ہیں (مل بھی رہی ہیں )۔
بولا۔۔۔صاحبی میرا شیعہ دوست بنا جس کے دو بھائی اور کوئی بہن نہ تھا۔میں نے جماعت والوں کو نوید سنائی کہ اک اور کافر مسلمان ہونا چاہ رہا ہے اور آ رہا ہے ۔میں نے ان کو دوسرے جماعت والوں سے متعارف کروا کر ان کو ٹریننگ دینے پر آمادہ کیا اور سمجھایا کہ اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ اک نیم ایمانی مسلمان سیڑياں چڑھ کے کامل ایمانی مسلمان بنایا جائے اور یوں اس آدمی کو شرمناک جرم یا یوں کہہ دیجئے کہ مضحکہ خیز غلطی کے لئے کمر بستہ کیا گیا ۔ٹریننگ ہوئی واپس لوٹے ،کہنے لگے کہ اب انسانیت اپنے دشمنوں کو پہچاننے میں کوئی دوری یا دیری نہیں برتنے والی ۔
٨ مہینے بعد اپنے گھر کی طرف چل بسا۔گھر میں وہ آگ بھڑکائی جس کو بجھانا اب کسی کے وس اور بس میں نہ تھا ۔ٹیپ میں کیسیٹ ڈال کر حقنواز جھنگوی کے بیانات سننے لگا جس میں جھنگوی صاحب تمام شیعوں کو کھلم کھلا کافر کہنے پر تلے رہے ۔چھوٹے بھائی کو تپ چڑھی ،ٹیپ اٹھا کر باہر پھینکا ۔یہ سب دیکھنے پر انسانی شعور کے علمبردار نے پستول نکالا ،اپنے ہی سگے بھائی کو وہیں ٹھوکا گیا مارا گیا ۔
پولیس کو اطلاع دی گئی ۔پولیس آی، ہر دفعہ کی طرح ملزم کو جیل بھیجوا کر عدالت میں پیش کیا گیا اور جون ایلیا کی بات سچی ٹہری کہ سب خدا کے وکیل ہیں لیکن آدمی کا کوئی وکیل نہیں ۔ پیشياں چلتی گئییں وکیل بکتے گئںے اور قانون توڑا گیا ۔اب پھر سے حکمت آفریں اور فتح مند انسان کو بری کیا گیا ۔ماں باپ سے معافی مانگی گئی ۔ماں باپ نے معاف کیا ،سوچا چلو اک بیٹا تو گیا دوجا تو آیا ۔گھر لوٹا، اپنے بھائی کے خون سے رنگے ہاتھوں نے پھر سے اسلام سرے سے زندہ کرنا چاہا ،نیا ٹیپ اور کیسیٹ لے کے ٹیپ میں ڈالا ۔اب تیسرا اور سب سے بڑا بھائی رمز کو نہ سنبھلتے ہوے بھڑک اٹھے ۔”تم نے پھر وہی ڈرامہ رچانا چاہا جس کی وجہ سے میرے بھائی کی جان گئی ؟” جواب ملا “یہ تو شروعات ہے، اسلام زندہ رہے بس بھائی کو بھولا جائے “۔
حیران کن عشق و وجدان کے حامی بھلا کیوں اپنے بھائی کی بات مانے؟ ہاتھا پائی ہوئی ،١٠ منٹ تک اک دوسرے کو خون میں لت پت پایا گیا ۔بڑے بھائی کمرے کی طرف بھاگ چلے ،پستول اٹھا کے دے مارا ،دوسرا مارا تیسرا مارا ،مارتے مارتے مار ہی ڈالا۔یوں دو بھائیوں کی زندگياں اس ‘ صحیح غلط ‘ کے سفر میں ڈوب گئیں ۔جماعت والوں کو پتا چلا ،عظیم ازہان جنہوں نے کبھی اپنے آپ کے لئے نہ سوچا ،اب مجاھد کی پروا کرنے پے تلے رہے ۔٣ مہینے بعد موٹرسائیکل سواروں نے اب بڑے بھائی کو بھی موت کے گھاٹ اتار ہی دیا اور یوں ماں باپ کے ٣ بیٹوں نے اس کشمکش میں جانیں گنوائیں ۔
البتہ سن کے افسوس ہوا پر یہ سوچ کر کہ اس خبر کو نہ کوئی کتاب میں جگہ ،نہ کوئی آرٹیکل اور نہ کوئی اخبار کی رسائی ملی ،اپنے ایمان اور اپنے ہونے پر سے یقین اٹھ گیا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔