تاریخ نے سندھ اور بلوچستان کے قومی وجود وطنی تشخص، بقا اور سلامتی کو پاکستان کی غیرفطری دہشت گرد ریاست سے نجات سے مشروط کر دیا ہے، خطے کی قومی تحریکوں کا پاکستانی فاشسٹ ریاست (پنجابی استعماری قبضے) سے نجات کے لیے سیاسی جدوجہد اور قومی مزاحمت کے لیے پائیدار اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکاہے۔
جیئے سندھ متحدہ محاذ کے چیئرمین شفیع برفت اور بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کے درمیان ٹیلیفون کے ذریعے سندھ بلوچستان کے موجودہ حالات، خطے کی صورتحال اورعالمی قوتوں کے درمیان سیاسی معاشی تزویراتی تضادات کے حوالے سے طویل اور اہم ترین گفتگو ہوئی اور سندھ وبلوچستان کی قومی تحریکوں کے درمیان سیاسی اتحاد کے لیے اصولی اتفاق کیا گیا۔
دونوں رہنماؤں نے اپنے سیاسی ونظریاتی موقف کے مدنظر موجودہ حالات کا جائزہ لیا اور تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم سندھ اور بلوچستان کی قومی تحریکوں خصوصاً (پہلے مرحلے میں) جسمم اور بی این ایم کے سیاسی اتحادکے لیے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کرتے ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ تاریخ نے سندھ اور بلوچستان کی قومی بقاء وطنی تشخص اور سلامتی کو پاکستان کی غیر فطری ریاست سے آزادی سے مشروط کیا ہے، پاکستان ایک غیر فطری فاشسٹ،دہشت گرد ریاست ہے،جہاں تاریخی قوموں کو مذہب کے نفسیاتی ہتھیار اور فوج کے بندوق کے ذریعے بدترین نسل کشی،غلامی آمیزذلت،سیاسی جبراور معاشی استحصال کا شکار بنایا گیا ہے، خطے کی تاریخی قوموں کی آزادی پسند اور ترقی پسند سیاسی تحریکوں کا پاکستان کی غیر فطری دہشت گرد ریاست کے خلاف سیاسی جدوجہد اور قومی مزاحمت کے لیے اتحاد تاریخ کی اولین شرط اور تقاضا بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا موجودہ پی ڈی ایم کے نام پر پاکستان کے کرپٹ سیاسی اشرافیہ کا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اتحاد در اصل اقتدار کی رسا کشی اور نورا کشتی ہے، جس کا نفسیاتی پہلو اس غیرفطری ریاست کو مزید دوام بخشنا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس غیر فطری ریاست پاکستان میں ”ووٹ اور سیاست کو عزت دو“ کے نام پرمظلوم ومحکوم قوموں کو گمراہ کرنے اورقومی تحریکوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے سیاسی حیلہ وہنر کے طور پر پی ڈی ایم کو وجودمیں لایاگیا، مظلوم قوموں کے دیش دروہی طبقات کو پنجابی سیاسی اشرافیہ نے متحرک کیا ہے تاکہ سندھ اور بلوچستان کی قومی تحریکوں کی حقیقی سیاسی جدوجہد، قومی مزاحمت اور تاریخی مطالبات سے عوام کی توجہ ہٹایا جا سکے، فوجی اسٹیبلشمنٹ، سیاسی اشرافیہ اور مظلوم قوموں سے پنجابی سامراج کے سیاسی دلال طبقات دراصل سندھ اوربلوچستان کو پنجابی سامراج کا غلام رکھنے اور سیاسی جبری معاشی استحصال کا شکار بنانے کے اصول پر سب کے سب متفق ہیں جب کہ اس غیر فطری ریاست پاکستان کا اصل بحران تاریخی قوموں کا سیاسی سوال کا حل نہ ہونا ہے جو قوموں کی قومی آزادی کے تاریخی مطالبے اور مقصد سے مشروط اور جڑا ہوا ہے۔ قومی آزادی کا سوال قوموں کا سب سے بڑا جمہوری ایجنڈا ہے جس کو سمجھنے سے استعماری قوتیں، پنجابی سیاسی اشرفیہ اور پنجاب کے سیاسی دلال طبقات قاصر ہیں۔
بلوچ اورسندھی رہنماء نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فاشسٹ ریاست کے جبری قبضے سے سندھ اور بلوچستان کی سیاسی معاشی جغرافیائی آزادی اور پاکستان سے آزادی ہی مظلوم قوموں کا سب سے بڑا قومی سیاسی جمہوری انسانی حقوق کا ایجنڈاہے، پاکستان میں پنجابی استعماری حکمران طبقات اور پنجابی سیاسی اشرافیہ فوجی اسٹیبلشمنٹ تاریخی قوموں کو مسلسل غلام بنانے کے لیے مذہب کے نام پر دھوکا دہی اور گمراہی سے کام لے رہے ہیں، دوسری طرف ریاستی اداروں فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے سندھ اور بلوچستان میں مسلسل بدترین سفاکیت،فاشزم اوربربریت کے ذریعے قومی نسل کشی کی جا رہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے آزادی ہی تاریخی قوموں کی بقا ء، وطنوں اور سلامتی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے، اس لیے سندھ اور بلوچستان کی تمام سیاسی قومی پارٹیوں کے درمیان پنجابی سامراج کے خلاف اور آزادی پسند سیاسی اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
جسمم اور بی این ایم رہنماؤں نے مزید کہا اس سلسلے میں ہم جلد سندھ اور بلوچستان کی دیگر قومی آزادی میں یقین رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی قیادت سے رابطے کریں گے اور اس مجوزہ اتحاد کے حوالے سے ایک مشترکہ میٹنگ کا اہتمام کیا جائے گا جس میں اتحاد کے حوالے سے ضابطے اور اصول طے کیے جائیں گے۔مجوز ہ اتحادکا پہلا مقصد سندھ اور بلوچستان کی قومی آزادی ہوگا یہ مجوزہ تاریخی اتحاد سندھ بلوچستان کی قومی آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد قومی مزاحمت کو منظم مستحکم کرنے کے ساتھ عالمی حوالے سے سندھودیش اور بلوچستان کی قومی آزادی کے سیاسی قومی موقف کو ڈپلومیٹک فرنٹ پر بھی مشترکہ یا اتحادی کی حیثیت سے تاریخی قوموں کا سیاسی قومی کیس عالمی اداروں کے آگے رکھے گا۔
بلوچ و سندھی رہنماؤں نے کہا کہ بات چیت کے اگلے مراحل میں مجوزہ اتحاد کے لیے نام اور اصول و ضوابط طے کیے جائیں گے۔