بلوچستان کے بلوچ بیٹے راہوں میں رُل رہے ہیں
تحریر : محمد خان داود
دی بلوچستان پوسٹ
امیر صوبے کے غریب طالب علم لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
ان کے پیر زخمی ہیں، ان کی آنکھوں میں خواب ہیں اور وہ ایک دوسرے کو بلوچی میں دلاسہ دے کر پھر آگے چل پڑتے ہیں۔ ابھی ان کا سفر جاری ہے۔
اور ابھی اسلام آباد بھی دور ہے
جہاں وہ صاحب ِ اقتدار کو بتا پائیں کہ وہ باتیں جو انہوں نے اب تک کسی کو نہیں بتائیں
جہاں وہ دکھاپائیں گے وہ آنکھیں جن آنکھوں میں خواب ہیں جو خواب انہوں نے اب تک بس اپنی ہی آنکھوں میں سنبھال رکھے ہیں
اور وہ ان پیروں سے پٹیاں کھولیں گے، جو پیر زخمی ہیں
کیا جب کوئی پارلیمینٹینر آگے بڑھ کے ان پیروں کے زخم دیکھے گا جو پیر دردوں سے چور ہیں اور زخموں سے بھرے ہوئے؟
وہ پیر تو ایسے ہیں کہ ان پیروں کو آنکھوں پہ رکھنا چاہیے کیوںکہ وہ پیر مسافروں کے پیر ہیں
اور مسافر بھی ہو جو امیر صوبے کے غریب طالب علم ہیں
پر کون آگے بڑھے اور کیوں آگے بڑھے؟
اور وہ خواب بھی موبائل سنگنلز کی طرح کبھی ان کی آنکھوں میں پورے کے پورے سما جاتے ہیں، کبھی مٹ جاتے ہیں۔ وہ کچھ نہیں چاہتے، وہ بس تعلیم چاہتے ہیں اپنا وہ حق چاہتے ہیں جو آئینِ پاکستان میں جلی حروف میں درج ہیں۔
ان کا یہ سفر قومی میڈیا میں نظر نہیں آرہا، پر جن کو معلوم ہے کہ ان کے پیارے حصول تعلیم کے لیے سفر میں ہیں وہ جانتے ہیں کہ بہاؤدین زکریا کے شہر سے چلنے والا قافلہ اب کہاں پہنچا؟
پیچھے رہ جانے والے اپنے پیاروں کو فون بھی کرتے ہیں۔ ان کا حال بھی پوچھتے ہیں انہیں دلاسہ بھی دیتے ہیں اور ان کے زخمی پیروں کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کرتے ہیں
ان تصاویر کو دیکھ کر ہم جان جاتے ہیں کی
”سفرسوکھے نہیں ہوتے!
سفر اوکھے ہوتے ہیں!“
مجھے نہیں معلوم کہ ”سفر“”درد“کا پہلا نام ہے یا دوسرا؟
پر دونوں بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں
درد میں سفر ہوتا ہے
اور سفر میں درد
اس وقت ملتان سے چلنے والے طالب علم ایسی ہی کیفیت سے گزر رہے ہیں
دردیلے سفر سے
اور سفر بھرے درد سے!
پر یہ سفر اور درد بلوچستان کے ہی دامن سے کیوں لگ گیا ہے؟
ہم بلوچستان کی طرف دیکھتے ہیں تو پورا بلوچستان سفر میں محسوس ہوتا ہے اور سفر درد ہی کا پہلا یا دوسرا نام ہے۔ مائیں سفر میں، بیٹیاں سفر میں، بہنیں سفر میں، بوڑھے والدین سفر میں، بچے سفر میں، محبوبائیں سفر میں، بھائی سفر میں، مسخ شدہ لاشیں سفر میں اور یہ سفر درد ہی کا پہلا یا دوسرا نام ہے۔
کیا کبھی کسی نے ان پیروں کا بوسہ لیا ہے، جو سفر کے دوران زخمی ہو کر لہو لہو ہو رہے ہوتے ہیں؟
ماؤں کے زخمی پیر، ماؤں کے متلاشی پیر!
اب وہ پیر بھی زخمی زخمی ہیں، جو چالیس دن تک ملتان میں بابا بہاؤدین ذکریا یونیورسٹی کی پرانی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اس بات کی آس لگائے بیٹھے رہے کہ ان کی سنی جائیگی ان کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالہ جائیگا۔ وہ ان خوابوں کو اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھیں گے جو خواب انہوں نے رات کے اندھیرے میں نہیں دیکھے پر وہ خواب انہوں نے دن کے اجالے میں دیکھے ہیں
ایسے خواب
جو انہیں سونے نہ دیں
ایسے خواب جو انہیں رونے نہ دیں
پر ایسا نہیں ہوا اب تو خوابوں پر بھی ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، ملتان یونیورسٹی بلوچ طالب علموں کے خوابوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے اور بلوچ طالب علم اپنی آنکھوں کے خواب بچانے کے لیے درد بھرا سفر کر رہے ہیں، جو سفر سب کو نظر آرہا ہے، پر وہ خواب اس میڈیا کو نظر نہیں آرہا جس میڈیا کی دو آنکھیں ہیں
اور ان دونوں آنکھوں میں ایک میں شیخ رشید سگار پی رہا ہے
اور دوسری آنکھیں میں مولانا طارق جمیل عمران خان کی ثناخوانی کر رہا ہے۔
امیر صوبہِ بلوچستان میں سب کچھ ہے پر کیے گئے عہد کی وفا نہیں۔ رکوڈک، دودر، سی پیک والوں نے بھی تو عہد کیے تھے۔ بلوچوں نے اس عہد کا پاس رکھا سب کچھ ہونے دیا اور جو اب تک ہو رہا ہے اسے بھی برداشت کیا۔ پر ایک بھی عہد وفا نہیں ہوا، رکوڈک والوں نے بھی تو کہا تھا کہ سونا نکالنے دو ہم تمہیں پڑھائیں گے، بلوچ بیٹے رکو ڈک کا در کھڑکا کھڑکا کہ تھک چکے ان کے ہاتھ زخمی ہوچکے پر رکو ڈک کا در بلوچ طالب علموں پر نہیں کھلتا۔
دودر، گوادر، بلند بالا پہاڑ، اور وہ سب لُٹیرے جو اپنے ساتھ جھوٹے وعدے لائے اور بلوچستان کے دامن سے نیلگوں پانیوں سے لیکر، چمکتے سونے تک، سوئی کی گیس سے لیکر، بلند و بالا پہاڑوں کے سنگ مرمر تک سب لوٹ کر لے گئے۔ پر بلوچستان کو کچھ نہ دیا۔ امیر بلوچستان اب بھی غریب ہے۔
موجود غیر ملکی کمپنیاں بہت امیر ہو چکی ہیں۔ امیر بلوچستان کے غریب لوگوں کو تو یہ کمپنیاں اپنے گیٹ پر چوکیدار بھی نہیں رکھتیں، تو بھلا ان بلوچ بیٹوں کو وہ اسکالرشپ کیسے دیں گے، جس میں پڑھ جانے کے بعد کوئی بھی بلوچ شہداد بلوچ بن کر ان سے سوال کر سکتا ہے اور جب سوال کا جواب نہ ملے تو بندوق بھی اُٹھا سکتا ہے۔ اس لیے یہ ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیاں وعدے کرتی ہیں اور پھر بیچ میں دلالوں کو لاکر بہت کچھ بھول جا تی ہیں، امیر بلوچستان میں آج اگر اچھے معیاری تعلیمی ادارے بنا دیے ہوتے تو لکمیر سے لیکر جئیند بلوچ تک ان راہوں میں نہ رُلتے جن راہوں میں سوائے سفر کے کچھ نہیں۔
اب بلوچ بیٹے ہی کیا، پر ان کے خواب بھی راہوں میں رُل رہے ہیں
اور کوئی نہیں جو ان کا پرسان حال بنے
کوئی نہیں
کوئی نہیں!
کاش قومی میڈیا کی آنکھوں سے نفرت کی پٹی اترے اور وہ اپنی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہر ایسی سرخی جلی حروف سے لگائیں کہ
”بلوچستان کے بلوچ بیٹے راہوں میں رُل رہے ہیں!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔