بلوچستان کی جان لیوا سڑکیں – ٹی بی پی اداریہ

301

بلوچستان کی جان لیوا سڑکیں
ٹی بی پی اداریہ

ایک غیر سرکاری تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں محض اگست 2020 کے ماہ میں 944 سڑک حادثات پیش آچکے ہیں۔ جسکا مطلب ہے کہ بلوچستان میں روزانہ 30 سڑک حادثات پیش آتے ہیں۔ ان مذکورہ حادثات میں 143 افراد جانبحق جبکہ 1470 شدید زخمی ہوچکے ہیں۔

بلوچستان کے سڑکوں پر محض اگست کے مہینے میں ہی موت کا رقص جاری نا تھا بلکہ جولائی کے ماہ میں بھی 1099 حادثات ریکارڈ کیئے گئے، جن میں 123 جانیں ضائع جبکہ 1462 افراد زخمی ہوئے۔ اسی طرح کے اعدادوشمار جون کے مہینے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جب 949 سڑک حادثات میں 109 افراد جانبحق جبکہ 1433 زخمی ہوئے۔

کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ اعدادوشمار ہنگامی حفاظتی اقدامات متعارف کروانے کیلئے کافی تھے لیکن بلوچستان میں حقائق اسکے برعکس ہیں، کیونکہ ابتک سڑکوں کی حالت بہتر بنانے اور حادثات کے روک تھام کیلئے کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

بلوچستان کی دہائیوں پرانی خستہ حال سڑکیں، حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ان سڑکوں میں سے بدترین813 کلومیٹر طویل این _ 25 شاہراہ ہے، جسے آر سی ڈی شاہراہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سڑک کو تیس سال قبل ہلکے ٹریفک کیلئے تعمیر کیا گیا تھا، لیکن تین دہائیاں گذرنے کے بعد آج یہ شاہراہ بھاری ٹریفک کا گذرگاہ ہے، جس میں گذشتہ دو سالوں کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری کی سرگرمیوں کی وجہ سے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ اب بلوچستان کا سب سے مصروف اور سب سے خطرناک شاہراہ بن چکا ہے۔ لیکن ابتک یہ سڑک دو رویا ہی ہے باوجود اسکے کہ روزانہ یہ ہزاروں مسافر بسوں، مال بردار گاڑیوں اور نجی استعمال کے گاڈیوں کے زیر استعمال رہتی ہے۔

جون سے اگست 2020 کے حادثات کے اعدادوشمار پر تجزیئے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر حادثات گنجائش سے زیادہ بھری گئیں مال بردار گاڑیوں کی وجہ سے پیش آتی ہیں، جن میں سے اکثر سڑکوں پر چلانے کیلئے موزوں بھی نہیں ہیں۔ ایک اور بڑی وجہ مسافر بسوں کا مال برداری میں استعمال ہونا ہے، سینکڑوں بیرل ایندھن ان مسافر بسوں کے چھتوں پر لادی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے کئی آگ لگنے کے واقعات پیش آچکے ہیں لیکن ان گاڑیوں کو ضابطے میں لانے کیلئے حکام کی جانب سے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔

ایسے خطرناک سڑکوں اور روزانہ کے حادثات کے باوجود اس شاہراہ پر ایمرجنسی کی کوئی سہولت میسر نہیں اور حادثات میں زخمی ہونے والوں کو زیادہ تر لوگ خود اپنی مدد آپ سینکڑوں کلومیٹر دور واقع ہسپتالوں تک منتقل کرنے کی کوششیں کرتی ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے زخمی جانبر نہیں ہوپاتے۔

بلوچستان کی حالیہ حکومت نے 2019 میں اعلان کیا تھا کہ ابتدائی طبی امداد مہیا کرنے کیلئے بلوچستان کے سڑکوں پر متعدد میڈیکل سینٹر قائم کیئے جائیں گے۔ لیکن ابتک ان اعلانات پر عمل نہیں کیا گیا ہے اور ہر ماہ سینکڑوں جانیں ضائع ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔

یہاں صرف صوبائی حکومت ہی نا اہلی کا مظاہرہ نہیں کررہا بلکہ وفاقی حکومت نے بھی این_ 25 شاہراہ کو کشادہ کرکے چار رویا بنانے کے فنڈ روک رکھے ہیں۔

ستمبر کے ماہ میں بلوچستان حکومت نے ایک آر ایف پی ( ریکوسٹ فار پروپوزل) کا اشتہار جاری کیا تھا لیکن دوسری طرف بلوچستان حکومت کی جانب سے یہ اشارہ دیا گیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈ تعطل کا شکار ہیں۔

بلوچستان میں انسانی زندگی کی اہمیت گھٹا دی گئی ہے، بلوچستان کی تمام سماجی جہتیں تباہی اور انسانی زندگی کی ناقدری کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ سڑک حادثات لوگوں کی تکالیف میں اضافہ کرنے کا ایک اور ذریعہ بن چکے ہیں۔

اب وقت آچکا ہے کہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور اور ایک طویل المدتی حل نکالا جائے۔