اب لوٹ آو! وہاں، جہاں کتابیں اور محبوبائیں منتظر ہیں – محمد خان داؤد

160

اب لوٹ آو! وہاں، جہاں کتابیں اور محبوبائیں منتظر ہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کنفیوشس نے اپنے شاگردوں کی تعلیم کی، شاگردوں نے کنفیوشس کی علمی باتیں یاد کیں، وقت کے ظالم بادشاہوں نے کنفیوشس کے شاگردوں کو زندہ جلادیا اس لیے کہ ان کے سینے میں کنفیوشس کی باتیں محفوظ تھیں، کنفیوشس کے شاگردوں نے اپنے عظیم استاد کی باتوں کو اپنے ساتھ جلنے نہ دیا، ان شاگردوں نے کنفیوشس کی تمام باتیں بہت بڑے بڑے پتھروں پہ کندہ کر دیں۔
لوگ مٹ گئے
زمانے مٹ گئے
بادشاہوں کے بادشاہ مٹ گئے
پر کنفیوشس کی باتیں ان بہت بڑے پتھروں کی بدولت اب تک زمانے میں گردش کررہی ہیں۔
باتیں نہیں مرتیں، باتوں کا سفر بہت طویل ہوتا ہے!

کنفیوشس کے شاگردوں نے اپنے گرو کی باتیں پتھروں پہ لکھ دیں
اور بلوچ شاگردوں نے اپنے پیروں کے نقوش سڑکوں پہ چھوڑ دیے ہیں
پتھروں پہ علمی باتیں ہیں اور اداس سڑکوں پر نقشِ پا
اب جو کوئی بھی جدوجہد شروع کریگا اسے ان پتھروں اور اس سڑک کو ضرور دیکھنا پڑے گا
جن پتھروں اور سڑکوں پر وقت کے حکمرانوں سے ڈٹ جانے کا سبق تحریر ہے
اور وہ سبق کیا ہے؟
محبت کی باتیں اور حصول علم کی جستجو
محبت کی باتوں کے لیے کنفیوشس کے شاگرد زندہ جل جاتے تھے
اور تاریخ شاہد ہے کہ علم کی جستجو کے لیے بلوچ شاگرد اپنے پیروں پہ پٹیاں باندھے چلتے رہے!
آج اگر کنفیوشس کے شاگرد اپنے استاد کی باتوں کے لیے نہ جلتے تو کہاں ہو تی وہ
”سنگی کتابیں!“
وہ شاگرد اپنے عظیم استاد کی علمی باتوں کی بقا کے لیے پتنگوں کی ماند جل گئے پر جلنے سے پہلے وہ بھاری پتھروں کی نوکیلی نوک سے ان بھاری پتھروں پر اپنے عظیم استاد کی وہ باتیں لکھ گئے جو باتیں ہر ظالم بادشاہ کے لیے عوامی موت کا سبب بنتی رہے ہیں، جن باتوں میں ایسی باتیں بھی تحریر تھیں کہ
”کھانا کم کھاؤ
کتاب پوری پڑھو!“
ایسی باتیں بھی درج تھیں کہ
”بادشاہ سے زیا دہ عالم کی قدر کرو
بادشاہ تو مسلط کیا جاتا ہے
عالم میٹھی ریت کی طرح ہوتا ہے
جیسے پیر پڑتا ہے دھنستا چلا جاتا ہے!“

ایسی باتیں بھی درج تھیں کہ
”تھوڑے پیسے ہوں
اور بہت فکریں
تو ان پیسوں سے بچوں کو کتابیں خرید کے دو
اور بے فکر ہو جاؤ!“
وقت کے ظالم حکمران کنفیوشس کی باتوں سے بہت خائف رہے ہیں عظیم انسانوں کا المیہ یہی رہا ہے کہ ان کے ساتھ بس ان کا جسم جاتا ہے ان کی عادات سے لیکر ان کی باتیں اسی دنیا میں رہ جاتی ہیں
عیسیٰ سے لیکر،محمد ﷺ تک
کنفیوشس سے لیکر اوشو تک
لوتھر کنگ سے لیکر، صباء دشتیاری تک سب کے عادات، اطوار
اور باتیں یہی رہ گئی ہیں
مختصر جسموں والے انسانوں کی باتوں کی حیات بہت طویل ہوتی ہے
انسان مر جا تے ہیں، باتیں نہیں مرتیں
اور جدو جہد میں کیے گئے سفر بھی نہیں مرتے،
ان سفروں کی مسافت اور ان مسافتوں میں اُٹھے پیروں کے نشاں ان سڑکوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کندہ ہو جا تے ہیں جیسے کوئی جائے اور جا کہ عظیم انسانوں کی رہ جانے والی باتیں پڑھ لے ایسے کوئی جائے اور جا کہ ان سڑکوں پر رہ جانے والے نشاں دیکھ لے اور اپنی جدو جہد وہیں سے شروع کرے جہاں وہ زندہ دل انسان اپنی جدو جہد کا آخری قدم چھوڑ جاتے ہیں۔

تو فتح یاب، جدو جہد کی علامت کے امین بلوچ طالب علموں کے پیروں کے شروع کے نشان ملتان میں ملیں گے اور آخری نشان لاہور کی اس سڑک پر ملیں گے جہاں آج وہ جھوم رہے ہیں، جہاں آج وہ مسکرا رہے ہیں جہاں آج وہ کافی دنوں بعد ہنس رہے ہیں، جہاں وہ آج کافی دنوں بعد ایک دوسرے کو چھیڑ رہے ہیں جہاں وہ آج کئی دنوں بعد ایک دوسرے کو اس نام سے بُلا رہے ہیں جس نام سے وہ چڑتے ہیں، جہاں وہ آج کئی دنوں بعد سرد موسم میں گرم چائے پی رہے ہیں۔

جہاں وہ اپنے زخمی پیروں پر نئی پٹیاں باندھ رہے ہیں، جہاں وہ اپنے پٹھے جوتوں کو دیکھ رہے ہیں، جہاں وہ اپنے کاندھوں سے بیگ اُتار کر کچھ دیر کے لیے سستا رہے ہیں۔

وہیں پر ان بلوچ فتح مند طالب علموں کے پیروں کے آخری نشان ہیں
اب وہ فتح یاب ہوئے ہیں اب ان کے علیل دلوں کو قرار ملا ہے
اب ان کے غم زدہ چہروں پہ ہنسی لوٹ رہی ہے
اب وہ بے وجہ مسکرا رہے ہیں
پر اب وہ کیا کریں اور کہاں جائیں؟

اب وہ وہاں لوٹ جائیں، جہاں کتابیں اور محبوبائیں ان کے دید کی منتظر ہیں
اب وہ وہاں لوٹ جائیں جہاں وہ اپنی بند کتابیں چھوڑ آئے تھے
اب وہ وہاں لوٹ جائیں جہاں محبت کے رنگ ان کے منتظر ہیں
اب وہ وہاں لوٹ جائیں جہاں گرم جھپیاں ان کو ترس رہی ہیں
اب وہ وہاں لوٹ جائیں، جہاں وہ اپنے سستے موبائل فون پر سستا پیکج کر کے پہاڑوں کے دامن میں مقیم اپنی مور سے بات کیا کرتے تھے
اب وہ وہاں لوٹ جائیں جہاں جانے سے سب ویسا ہو جائیگا
جیسا وہ چھوڑ آئے تھے۔

اب وہ وہاں لوٹ جائیں جہاں سپنے اپنی آنکھوں کی تلاش میں ہیں
اب وہ وہاں لوٹ جائیں جہاں نیند اپنی آنکھوں کو تلاش رہی ہے
اب وہ وہاں لوٹ جائیں جہاں خواب ان آنکھوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جن آنکھوں میں گھیری نیند
اور حسین خواب ہوا کرتے تھے
اب وہ وہاں لوٹ جائیں
جہاں
کتابیں اور محبوبائیں دید کو منتظر ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔