کوہلو میں صحافت کی صورتحال – نذر بلوچ قلندرانی

115

کوہلو میں صحافت کی صورتحال

نذر بلوچ قلندرانی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ضلع کوہلو میں صحافت کا فقدان ایک المیہ بن چکا ہے۔ حیات بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ فرزند جو ظالموں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں، کرپشن، رشوت، منشیات کی خرید و فروخت اور ظلم و بربریت حد سے بڑھ چکی ہے، بدقسمتی سے تن کی آسانی زرد صحافت کو صحافی برادری نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ حالاںکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے عیش و عشرت کو اپنایا، تیغ و سناں کو چھوڑ کر طاؤس و رباب کو اپنی زندگی قرار دیا، وہ قوم یوں مٹ گئی جیسے خزاں میں پتہ درخت سے جدا ہوتا ہے۔

نیشنل پریس کلب کوہلو جہاں مظلوم عوام کی امیدوں پر پورا اتر رہا ہے، وہاں ان کی محرومیوں اور ذلت بھری زندگی سے کوئی آشنا نہیں ہے۔ یقیناً وہ لمحہ مجھ سمیت ایک صحافی کے لیے اذیت ناک ہوگا جب مظلوموں کی آواز بلند کرتے ہوئے صحافی خود درندوں کی زد میں آئے اور اسے سڑکوں پہ گھسیٹتے ہوئے جیل کی سلاخوں تک لے جایا جائے تو خود کو مجرموں کے ساتھ دیکھ کر عجب سی خفت محسوس ہوتی ہے۔

جہاں ڈی سی آفس کا ایک دربان اور گن مین صحافیوں کو دھکے دے کر ان کے ساتھ بدسلوکی کرے۔ جنگل میں منگل کا قانون دیکھ کر ساری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ پھر یوں لگتا ہے جو اپنے جگر کے خون سے چراغ روشن کریں، ان کا ذکر تاریخ عزت اور احترام سے کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرتا جا رہا ہے، تاریخ تیزی سے مرتب ہو رہی ہے۔

وہ صحافی برداران جو ہمارے قافلے میں آ کر ہمارے حوصلہ پست کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان کے تیور جانچیں، ان کا رخ پہچانیں، ان کو رکاوٹ سمجھیں، ان کے زمزموں اور گھٹا کے اشاروں کو دیکھیں اور وقت کے اس تناظر میں اپنے فکروعمل کی تمام صلاحیتیں بامقصد جدوجہد کے لیے وقف کریں۔

آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہمارے دل انسانیت کی خدمت سے لبریز ہوں۔ یہی تڑپ ہمیں ہماری منزل تک لیے جائے گی۔ کیوں کہ جوش و جذبہ ہم رکاب ہو تو راستے کے کانٹے، پھول اور پہاڑ کنکر ہو جاتے ہیں۔ سچ کی بقا کے لیے جہدوجہد و جذبے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم تن آسان بنے رہے، چند پیسوں کے لیے اپنا ضمیر بیچتے رہے تو یاد رکھنا راستے تاریک اور منزل دور ہوجائے گی۔ اگر ہم نے سعی و کوشش کو شعار بنائے رکھا تو ہمارا حال ایک تاب ناک مستقبل کا آئینہ دار بن جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔