بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4076 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا انسان کے ہاتھوں استحصال، بالادستی، جبر، استبداد اور قومی، نسلی، طبقاتی محکومی، غلامی کا مکمل خاتمہ سیاسی اور سماجی پروگرام کا حامل ہے لیکن یہاں بلوچ فرزندوں کی قتل و غارتگری اور قید و تشدد کی سامراجی روایات اگرچہ نئی نہیں ہیں تاہم اس بار یہ گھناونی روایات درندگی اور حیوانیت کی تمام حدیں پار کرچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ پرامن جدوجہد کو کچلنے کیلئے پاکسستانی فورسز اور ان کے خفیہ اداروں کی مہم بلوچ نسل کشی کی مہم بن چکی ہے۔ اس نسل کش مہم میں درندگی اور سفاکیت کی مثالیں قائم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی قابض قوتیں نہ صرف بلوچستان کی سرزمین اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں بلکہ بلوچ قوم کو بھی ریڈ انڈینز یا قدیم آسٹریلوی باشندوں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دینے یا انہیں اپنی سرزمین سے بیدخل کرنے کی خواہش مند ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں پاکستانی سفاکیت کا مظاہرہ سیاسی کارکنوں، طلباء، نوجوانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے بلوچ فرزندوں کی اغواء نما گرفتاریوں، گمشدگیوں کے بعد ان کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی صورت میں سامنے آرہی ہے۔
دریں اثناء عبدالحئی کرد کے جبری گمشدگی کے خلاف لواحقین کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر #SaveAbdulHaiKur کے ہیش ٹیگ کے ساتھ آگاہی مہم چلانے کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔
عبدالحئی کرد کے بہن نصرین بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ان کے بھائی کے جبری گمشدگی کو دو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن تاحال ان کے حوالے سے کسی بھی قسم کی معلومات نہیں مل سکی، نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش گیا۔
خیال رہے نصرین بلوچ کے مطابق بھائی عبدالحئی کرد کو 21 مئی 2018 کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے کوہ باش ہوٹل بولان سے جبری طور پر لاپتہ کیا۔