بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4070 دن مکمل ہوگئے۔ قلات سے سیاسی و سماجی کارکنان علی احمد، دستگیر بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قابض ریاست انمول بلوچ فرزندوں کو جسمانی طور پر جدا کرکے ہمارے پرامن جدوجہد میں لغزش پیدا کرکے اعصابی طور پر شل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے عزم اور بلند حوصلوں سے ریاستی ادارے حواس باختگی کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حواس باختگی کے باعث وہ غیر انسانی حرکتوں اور ایسے وحشت خیزیوں کے انتہاء سے گریز نہیں کرپاتے ہیں جن سے انسانیت کی روح کانپ جاتی ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ نہتے خواتین اور بچوں کی بلاامتیاز شہادتیں اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ پاکستانی اداروں نے ان تمام جنگی قوانین کی دھجیاں اڑادی ہیں جنہیں عالمی سطح پر وضح کی گئی ہیں۔ 2000ء سے مسلسل بلوچ فرزندوں کی گرفتاریاں، انسانیت سوز ایزا رسانی سے شہادت اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنا اور ہزاروں بلوچ فرزندوں کو لاپتہ رکھنا پاکستان کی جانب سے عالمی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ جرائم پاکستان کو عالمی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے کافی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کیلئے پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے اور موجودہ حکومت خاص حکمت عملی کے تحت مختلف حربے استعمال کررہی ہے۔ خواتین اور بچوں سمیت طلباء اور سماجی کارکنان کے قاتلوں کو تحفظ دینا اسی سلسلے کی کھڑی ہیں۔