علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالب علم ثناء بلوچ کو گیارہ مئی دو ہزار بیس کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے خاران سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا۔
ثناء بلوچ کے گمشدگی کے حوالے سے گذشتہ روز ان کے لواحقین نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کیا اور ان کے جبری گمشدگی کے تفصیلات تنظیم کو فراہم کیئے۔
لواحقین نے انشکاف کیا کہ پاکستانی فوج کے کرنل عمر فاروق نے تصدیق کی کہ ثناء بلوچ ان کی تحویل میں ہے جن کو تفتیش کے بعد رہا کردیا جائے گا لیکن چار مہینے گزرنے کے باوجود ثناء بلوچ رہا نہیں ہوئے۔
لاپتہ طالب علم کے لواحقین کے مطابق محلہ تھانہ روز خاران کے رہائشی ثناء اللہ ولد محمد اسحاق کو 11 مئی 2020 کو صبح آٹھ بجے کے وقت جوژان کے مقام پر اس وقت لاپتہ کیا گیا جب وہ اپنے گاوں بناپ کی جانب جارہا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ثناء بلوچ کو پاکستانی خفیہ ادارے ملٹری انٹلجس (ایم آئی) کے اہلکاروں نے موٹر سائیکل سے اتارا اور موٹر سائیکل سمیت انہیں اغواء کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: دالبندین سے چار سال سے لاپتہ حفیظ اللہ کی مسخ شدہ لاش برآمد
لواحقین کا کہنا ہے بعد ازاں ہم علاقے کے سیاسی اور قبائلی شخصیات کے پاس گئے کہ وہ ثناء بلوچ کے بازیابی میں کردار ادا کرے جن کے توسط سے لواحقین 13 مئی کو پاکستانی فوج کے کرنل عمر فاروق کے پاس گئے جہاں انہوں نے تصدیق کی کہ ثناء بلوچ ان کی حراست میں ہے اور ان سے تفتیش کی جاری ہے جنہیں بعد میں رہا کردیا جائے گا۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ دن بدن گھمبیر صورتحال کی شکل اختیار کرتا جارہا اور دوسری جانب لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لواحقین کا پرامن احتجاج ماما قدیر بلوچ اور نصر اللہ بلوچ کی سربراہی میں ایک دہائی سے جاری ہے۔
خیال رہے لاپتہ ثناء بلوچ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے اسکالر اور نصیر کبدانی لبزانکی دیوان خاران کے صدر بھی ہے۔ وہ کرونا وائرس کے باعث یونیورسٹی کے بندش کی وجہ سے خاران آئے ہوئے تھیں۔