ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ – محمد خان داؤد

299

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ماہ رنگ بلوچ وہ سکھی ہے جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
،،سکھی پیا کھے ملیں تہ چئیجاں چاندنی تو سوا نہ تھیندی!،،
سکھی پیا کو ملو تو کہنا، چاندنی تم بن نہ ہوگی!،،
ماہ رنگ وہ سکھی ہے جسے دیکھ کر برسا برستی ہے۔ پھر چاہیے وہ برسا آنسوؤں کی ہی صورت میں کیوں نہ ہو
ماہ رنگ وہ اعلامیہ ہے جسے دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ بلوچستان کی دھرتی ابھی بانجھ نہیں ہوئی
ماہ رنگ ہو بہو ایاز کی وہ بول ہے، جس میں ایاز نے کہا تھا کہ
،،ایان رُجھ مان رڑ اچے پئی اچے
متان سمجھیں کہ مُئا مور سارا!،،
مہ رنگ بلوچ بلوچستان کا نیا یقین، نیا اعتماد ہے!
جسے دیکھ کر اب یہ یقین ہونے لگا ہے کہ بلوچستان مسکرا رہا ہے
حالاںکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بہت زیادہ دکھ، مصیبت، تکلیف ہے
پر ماہ رنگ کا درد ہے بلوچستان کی مسکراہٹ کا سبب ہے

کوئی تو ہے جو یہ جانتا ہے جسے یہ خبر ہے کہ سب اچھا نہیں ہے اور جو یہ جانتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے، سب ٹھیک نہیں ہے، وہی روڈوں پہ موجود ہے اور کوئٹہ کی سرد راتوں میں اپنی آنکھوں میں نئی اُمید کے خواب بن رہا ہے۔

وہ ماہ رنگ بلوچ ہے!
جسے جتنی کتابوں سے محبت ہے
اتنی ہی انسانوں سے
جسے جتنی مسیحائی سے محبت ہے
اتنی ہی راج نیتی سے
جو سب کچھ جانتی ہے
جو کچھ نہیں جانتی
جس کے پاس شاید یہی جواب ہو کہ
،،میں بس اتنا جانتی ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتی!،،
جو دیکھنے میں فلسفی
اور محسوس کرنے میں محبت ہے
مجھے نہیں معلوم کہ وہ سال بھر میں کلاس میں زیادہ دیکھی گئی ہے
یا ان روڈوں پہ جو روڈ گرمی میں سخت گرم، اور سردی میں سخت سرد ہوتے ہیں
ماہ رنگ!
ہمیں گرمی میں بھی ان روڈوں پہ احتجاج کرتی نظر آتی ہے اور سردیوں میں بھی ان ہی روڈوں پہ!
اس وقت جب ملکی میڈیا اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور وہ میڈیا جانتا ہی نہیں کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے اوراس وقت بھی ماہ رنگ بلوچستان کی سڑکوں پر اپنے بھائیوں کے سرہانے بیٹھی ہے۔

جب ملکی میڈیا پہ جنرل عاصم سیلم باجوہ کی ملکیت کی خبریں کسی طوفان لانے سے پہلے ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں اور میڈیائی ککڑ بانگ دیتے دیتے رہ گئے، جب ملکی میڈیا میں ایسی نہ تو کوئی خاص خبر ہے اور نہ ایشو جب بھی ملکی میڈیا اس ڈاکٹر کا رتجگا نہیں دکھا رہا، جو دن کے وقت اپنے بھوک ہڑتالی بھائیوں کے ساتھ احتجاج کرتی ہے اور رات کے وقت ان کے سرہانے بیٹھ کر ان کا سر دباتی ہے
اور ایسے ہی سحر ہو جاتی ہے
پر ملکی میڈیا پر بلوچستان کے حوالے سے تاریکی چھائی ہوئی ہے۔
یہ تاریکی کب چھٹے گی اور اجالا کب ہوگا
کون جانے اور کیوں جانے؟
پر بہت سی تاریکی اور بہت سے سنسر شپ کے باجود وہ روشن چہرہ عیاں ہو ہی جاتا ہے
جو بھٹائی کا تمر فقیر نہیں
جو بلوچستان کی نئی اُمید ہے
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ!
ماہ رنگ بلوچستان کی نئی ساکھ ہے، ایسی ساکھ جسے دیکھ کر اس بات پر یقین بڑھ جائے کہ
،،صبح تھیندو!،،
،،سویرہ ہوگا!،،
ماہ رنگ بلوچ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اب عدو کے دن کم اور اُمید کے دن زیادہ ہیں
ماہ رنگ بلوچ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ نیا سُرخ سویرہ دور نہیں، بس ہاتھ بڑھاؤ اور اپنے ہاتھوں میں نیا سویرہ بھرلو
ماہ رنگ بلوچ بھٹائی کا وہ تمر نہیں جسے شکایت رہتی تھی کہ
،،سائیں جو تی اتنی بھا ری؟!،،
اور بھٹائی جواباً فرماتے تھے کہ،،اس میں بس سفر نہیں درد بھی تو ہے!،،
پر ماہ رنگ بلوچ وہ جدید تمر ہے جسے اپنے مظلوم بھائیوں سے تو کوئی شکایت نہیں اور یہ خود آگے بڑھ کر ان مظلوم بھائیوں کے پیروں سے جو تے اتار بھی رہی ہے اور آگے بڑھ کر ان کے جو تے ان پیروں کے قریب بھی کر رہی ہے جو پیر اس فرسودہ نظام میں آخری کیل ٹھوکنے کہ در پہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر ان کی بھوک ہڑتال سے اس نظام میں وہ آخری کیل ٹھوکی جا سکتی ہے جس سے وہ بت گر کر پاش پاش ہو جائے جس بت نے کئی معصوم شاگردوں کے گلوں میں طوق ڈالا ہوا ہے تو وہ کسی کے منت کرنے پر بھی کچھ نہ کھائیں گے۔

پر پھر بھی انسانی جان تو انسانی جان ہے
اور اپنا حق لینے کے لیے زندہ رہنا ضروری ہے۔
مردہ حق نہیں لیتے مردہ دفن کیے جا تے ہیں۔

اس لیے ضرو ری ہے کہ بولان میڈیکل کالیج کے طالب علم اس بھوک ہڑتال سے باہر نکل کر کوئی اور راستہ چنیں، جس سے ان ماؤں کے بیٹے موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں، جو مائیں کوئٹہ سے دور اپنے گھروں میں اپنے بیٹوں کے لیے اپنی آنکھوں میں سپنے بن رہی ہیں۔ وہ مائیں یہ نہیں جانتی کہ بولان میڈیکل کالج کا امینڈمینٹ کیا ہوا رول کیا ہے اور ان کے بچے کیا چاہتے ہیں۔

اس لیے ان بلوچ بیٹوں کو بھوک ہڑتال سے باہر آنا ہوگا اور اپنی بات دوسرے طریقے سے انتظامیہ کے سامنے رکھنی ہوگی، جس سے نہ شکم کو تکلیف پہنچے اور نہ ان ماؤں کو جن ماؤں کو جب یہ معلوم پڑتا ہے کہ ان کا بیٹا اب مرگ بستر ہے، تو وہ کوئٹہ سے دور اپنا جگر تھام لیتی ہیں۔
خدارا ماؤں کے بیٹوں کو قتل مت کرو
انہیں زندگی بخشو
شہروں سے دور موجود مائیں
خدا نہیں
وہ بس مائیں ہیں
اور میں یہ بات ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے کہہ رہاہوں
جو ہر حال میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہا کرتی ہیں
جو ان کی جوتیاں سیدھی کرتی ہیں
جو بھٹائی کی تمرنہیں
جسے کوئی شکایت نہیں
جو بلوچستان کی نئی اُمید ہے
نئی سحر ہے
سرخ سویرہ ہے
جو ہو بہ ہو
سکھی ہے
جو ہجوم میں اکیلی ہے
جو اکیلے پن میں اجتماع ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔